ایک حیران کْن حقیقت ہے کہ دنیا میں ایسی یونیورسٹیاں بھی ہیں جو انسان کے “سوچنے”پر PHD کرا رہے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز بھی یہی ہے کہ وہ تعلیم پر کام کرکے اپنے مستقبل کے معماروں کو بہتر سمت دیتے ہیں پھر وہ کندن جب پک کر سونا بنتا ہے تو قوم کو اسکا بدلہ لوٹا دیتا ہے۔لیکن ہمارے ہاں بقول ڈاکٹر پروفیسر امتیاز احمد کے، بہتر تعلیم کا وجود ہی نہیں ہے ۔خاص طور پر اگر بات بلوچستان کی ہو تو اس صوبے میں گیس،سونے،تانبے کی کثرت سے پورا پاکستان چلتا ہے۔
یہ رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہونے کے ساتھ بہت سے ذخاہر سے مالامال ہے لیکن تعلیم کی بات کی جائے تو اس صوبے میں ان گنت صلاحیتوں،تخلیقیت اور قابلیت کو مناسب مقام اور وقت نہیں ملتا بلکہ یہ کہنا مضحکہ خیز نہیں ہوگا کہ یہاں تعلیم ہمیشہ سے تذبذب کا شکار رہا ہے۔ایک تو برطانوی طرزِ تعلیم اب تک اپنی اصل حالت میں ہے جسکو بدلنے کا خیال ہی شاید گراں گزرے۔ایسے میں ہماری قوم کے نوجوان اپنی الگ شناخت بنانے سے اکثر محروم رہ جاتے ہیں اور تعلیمی معاملات کولے کر شش و پنج کا شکار رہتے ہیں کیونکہ مڈل کے بعد سائنس یا آرٹس پڑھنے کے معاملے میں دوسروں کی رائے لیتے نظر آتے ہیں لیکن میٹرک کے بعد تو نیا غم پال لیتے ہیں۔
کیونکہ ان کا ماہنڈ سیٹ ایسا ہوتا ہی نہیں کہ وہ خود کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے لیے کسی شعبے کا انتخاب کریں۔ایسے میں دوسروں کے دیکھا دیکھی آگے بڑھتے ہیں اور دوسروں کے دیکھا دیکھی جیے جانے کو زندگی قرار دینا ظلم ہوگا،ایسی حاصل کی گئی تعلیم سوائے دباؤ کے کچھ نہیں دیتا۔ظاہر ہے جہاں اپنے شوق اور دلچسپی کا علم نہ ہو وہاں جینے میں مزہ کیسا،اسکے لیے بہت ضروری ہے کہ ایک مضبوط نظام ہو جہاں بچے کو مختلف مضامین پڑھانے کے علاوہ اسے اپنی ذات سے بھی پہچان کرائیں اسے اپنے خود کا علم ہوگا تو اسکی تعلیم علم کہلائے گی اور اس نظام میں والدین اور اساتذہ کا اہم رول ہوتا ہے۔
لیکن اساتذہ بھی تو متاثر کْن شخصیت کے مالک ہونگے تب جاکے وہ کاغذی تعلیم کو علم کا راستہ دے پاہیںگے۔ انسان اسی کی سنتا اور مانتا ہے جس سے وہ متاثر ہوتا ہے۔کہا جاتا ہے بڑا استاد بننے کے لیے بڑے استاد کی انسپائریشن چاہیے ہوتی ہے جو طالبعلم کو اسکی ذات سے ملادے لیکن لمحہِ فکریہ ہے کہ ہمارے بلوچستان میں ایسا کم و بیش دیکھنے کو ملتا ہے ہمارے نوجوان تعلیم کو محض نوکری کا اصول سمجھتے ہیں ،ہمارا نظام ہی ایسا ہے جو صرف نوکر ہی پیدا کر سکتی ہے ۔ دیکھا جائے تو یہاں ماسٹر کسی اور مضمون میں ہوتا ہے لیکن نوکری کسی اور شعبے میں کی جاتی ہے۔ کہیں لکھا ہوا اب تک ذہن میں گردش کرتا ہے۔
کہ “تعلیم ایک سفر ہے ریس نہیں”ہمارے ہاں معاملہ اسکے برعکس ہے،یہاں زیادہ نمبرز لینا اور زیادہ ڈگریوں کا ہونا ہی قابلیت اور کامیابی کی ضمانت ہے چاہے وہ علم سے خالی کیوں نہ ہو۔قاسم علی شاہ کے مطابق “کامیابی کو نمبروں سے ماپنا ظلم ہے”۔یہ بات واشگاف کہی جاسکتی ہے کہ اس ماہنڈ سیٹ نے بلوچستان کے تعلیمی معیار کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا ہے اس پر جتنا کام کرنے کی ضرورت ہے اسے اتنا ہی بلوچستان میں نظر انداز کیا جارہا ہے ۔بھاری فیسیں وصول کر کے بھی سوچنا سکھایا نہیں جاتا، بس رٹا لگواکے اپنی ذمے داری کو پورا سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں تقریباً ہر طالبعلم اپنی دلچسپی اور رجحان کے برعکس مضمون پڑھ رہا ہے ۔یہاں دفاتر میں کام سے بیزاری اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کام ان کے لیے بنا ہی نہیں کیونکہ اپنی دلچسپی کے کام کرتے ہوئے انسان تھکتا نہیں جیسے ماہیکل اینجلو مجسمے شوق سے بناتے بناتے اپنے بوٹ تک اتارنا بھول جاتا تھا۔
بلوچستان کے ہر گھر میں تخلیقی ذہن سمت نہ ملنے پر فنا ہو رہا ہے لیکن کوئی ایسا نہیں جو اس نظام کو بدلنے پر غور کرے تاکہ ہر طالبعلم اپنا پسندیدہ شعبہ منتخب کرنے میں دقت کا شکار نہ ہو،اسکے لیے سوچ میں جدت لانا غور و فکر ہو تو انسان اپنے دلچسپی کے کام کرکے زندگی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر عارفہ سیدہ کے مطابق “زندگی لطیفہ نہیں لطف کی چیز ہے”ظاہر ہے اپنی ذات کی سمجھ ہی زندگی کو رنگین بناتی ہے اور اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ تعلیم علم اس وقت بنتی ہے جب ہمارے احساس میں شامل ہو جاتی ہے مگر افسوس ہمارے ہاں کاغذ کی ڈگریوں میں طالبعلموں کا اپنا اصل قید جبکہ ایک خبط حواس نسل آگے بڑھ کے وہی سب سکھا اور پڑھا رہا ہوتا ہے جیسے ازل سے چلتا آرہا ہے۔ہم اپنی زندگیوں میں کافی کچھ بدلتے رہتے ہیں ایسے ہی کاش ہم اپنا ذہن اور اپنی سوچ بدلیں اور سب سے اہم بات اپنے شوق اور جذبے کی پیروی کرنا سیکھیں، ویسے بھی خود میں ڈوبنا ہی کمال ہوتا ہے۔