بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے میں موجود ریکوڈک منصوبہ ایک پرانا منصوبہ ہے جہاں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان اور بلوچستان کی بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی معیشت دن بدن ڈوبتی جا رہی ہے اور بلوچستان میں غربت اور افلاس کی کوئی حد نہیں مگر ان قیمتی وسائل سے اب تک استفادہ نہیں کیا جا سکا۔
سب سے پہلے 1978 میں جیولیجیکل سروے آف پاکستان نے ان ذخائر کی موجودگی کا سراغ لگایا لگا تھا مگر پہلی بار ریکوڈک منصوبے کے نام سے 1993 میں ان پر کام کرنے کیلئے ایک غیر ملکی کمپنی سے معاہدہ کیا گیا اور اس پر باقاعدہ کام آغاز کیا گیا۔ اتنے سالوں تک ان ذخائر پر توجہ نہ دینا ہماری سیاسی لیڈران اور ارباب اختیار کی ملک اور صوبے کے عوام کی ترقی بارے میں غیر سنجیدگی کی غمازی کرتا ہے۔ اس منصوبے پر باقاعدہ کام کا آغاز ٹی تھیان کوپر کمپنی نامی ایک غیر ملکی کمپنی نے 2007 میں کیا۔
2010 میں کمپنی نے بلوچستان حکومت کو اپنا رپورٹ پیش کیا اور نئے لیز کیلئے درخواست جمع کرادی تو اس حکومت بلوچستان کو معلوم ہوا کہ کمپنی نے دھاتوں کی ریفائن پروسسنگ کیلئے تو کوئی منصوبہ بندی کی ہی نہیں بلکہ یہ پروسسنگ تو ملک سے باہر کی کرنا چاہتی ہے تو اس وجہ شکوک و شبہات پیدا ہوگئے کہ کمپنی اصل پیداوار کو چھپانا چاہتی ہے۔
اس پر اس وقت کے حکمرانوں نے لیز دینے سے انکار کر دیا۔ کمپنی نے لیز حاصل کرنے کی بہت کوشش کی مگر جب مایوس ہو گیا تو معاملہ بلوچستان ہائی کورٹ میں لے گیا، جب بلوچستان ہائی کورٹ نے فیصلہ کمپنی کے حق میں دیا تو بلوچستان والوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ سپریم کورٹ نے تو کمپنی سے ہونے والا پہلا ہی معاہدہ ختم کر دیا اور یہ کہا کہ کمپنی کو اس قدر رعایتیں دینا ہی منرلز اور ملکیتی قوانین کے خلاف ہے۔
بالآخر کمپنی نے بین الاقوامی ثالثی ٹربیونل میں کیس کیا جس میں پاکستان کو 6 ارب ڈالر بطور ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا، پھر پاکستان نے ادائیگی کیلئے حکم امتناعی حاصل کیا۔ اس کے بعد دونوں فریقین نے فیصلہ کیا کہ اس مسئلے کو عدالت کے باہر ہی حل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ انہی کوششوں کے نتیجے میں گزشتہ چند دن پہلے وزیراعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو اور کینڈین کمپنی کے صدر مارک برسٹو نے مشترکہ پریس بریفنگ میں معاہدے کے اہم نکات بیان کئے اس معاہدے کے تحت 50 فیصد شیئرز کمپنی کے 25 فیصد حکومت بلوچستان اور 25 فیصد وفاق کے ہونگے۔
اس کے ساتھ ساتھ رائلٹی اور دیگر مدوں میں حکومت بلوچستان کو سالانہ ایک ارب ڈالر بھی ملتے رہیں گے تاہم بعض حلقوں میں اس معاہدے پر بہت سے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ریکوڈک پروجیکٹ ایک ایسا پروجیکٹ ہے جو بلوچستان کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پر اتنے سال گزرنے کے باوجود خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ بہرحال دیر آید درست آید ،اب اگلے سال کمپنی نے اس پر کام کرنے کا اعلان کردیا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔ البتہ چند بنیادی باتوں پر توجہ دینا نہایت ہی ضروری ہے وہ یہ کہ
٭دھاتوں کو ریفائن کرنا اور دیگر امور کو چاغی ہی میں سرانجام دیا جائے تاکہ ریکوڈک ذخائر سے نکلنے والی تمام چیزوں کو ملک سے باہر لے جانے کی ضرورت نہ ہو۔
٭ حکومت بلوچستان کو چاہئے کہ پیداوار کے اعدادوشمار اور دیگر معاملات کی نگرانی کرتا رہے ،محض کمپنی کے اعداد و شمار پر اکتفا نہ کرے تاکہ معلوم ہوجائے اصل پیداوار کتنی ہے کیونکہ سیندک منصوبے اور دیگر منصوبوں میں کمپنیوں کے دھوکہ دہی اور دو نمبری کے واقعات رو نما ہوتے رہے ہیں۔
٭ اس کے ساتھ حکومت بلوچستان کمپنی کو پابند کرے کہ بالخصوص ضلع چاغی کیلئے تعلیم،صحت اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے کیونکہ اگر ہم ماضی میں ان قدرتی وسائل نکالنے والی کمپنیوں کے تاریخ کا جائزہ لیں تو او جی ڈی سی اور پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ نے علاقے کے وسائل کو تو لوٹا ہے مگر بلوچستان بالخصوص ان علاقوں کو جہاں سے وسائل یعنی قدرتی گیس نکل رہی ہے ، اس سے محروم رکھا ہے۔ آپ ضلع ڈیرہ بگٹی میں سوئی کو دیکھیں جہاں قدرتی گیس 1952 سے نکالی جا رہی ہے مگر کتنے افسوس کی بات ہے۔
کہ گیس پلانٹ سے چند گز کے فاصلے پر جو گھر ہیں وہاں ہماری مائیں، بہنیں لکڑیاں جلانے پر آج بھی مجبور ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ سی پیک پروجیکٹ کو دیکھیں اس پروجیکٹ سے بلوچستان کو اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنا فائدہ سڑکوں کی صورت میں دوسرے صوبوں کو پہنچا۔
مختصر یہ بلوچستان میں وسائل کی کمی نہیں، وسائل اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے صحیح استعمال سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورا ملک ترقی یافتہ ہو سکتا ہے بشرط کہ ان کو ایمانداری سے استعمال کیا جائے ۔اسی طرح ریکوڈک سونے اور تانبے کی ذخائر کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف عطا کردہ ایک تحفہ ہے۔ اگر اس کو ایمانداری سے نکال کر استعمال کیا جائے تو پورے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔