|

وقتِ اشاعت :   July 28 – 2022

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں 2013ء میں سی پیک منصوبے کے آغازکے بعدانقلابی ترقی کاسفرشروع ہوا،دونوں ممالک کے درمیان سی پیک منصوبے کا تصور 1990ء کی دہائی میں ہوا تھا۔ اس ضمن میں سن2000ء کے وسط میں گوادر بندرگاہ تعمیر کیاگیا اور 2010ء کے بعدمختلف معاہدے بھی طے پاگئے تھے۔ 20 اپریل 2015ء کو چین کے صدرشی جن پنگ کے دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستان اور چین نے سی پیک کے تحت 46 بلین امریکی ڈالر کے منصوبوں پر اتفاق کیا گیا۔اس دوران دونوں ممالک کے درمیان 51 مختلف شعبہ جات میںمعاہدوں پردستخط کئے گئے۔
چائناپاکستان اکنامک کوریڈورگیم چینجرمنصوبہ بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادرمیں ہے جہاں پرگہرے اورنیلگون سمندرمیں بڑے آبی جہازبیک وقت لنگراندازہوسکتے ہیں۔ دلچسپ بات تویہ ہے کہ گوادر بندرگاہ خلیجی ریاستوں کے تیل کی برآمدات کا واحد بحری راستے آبنائے ہرمزکے قریب واقع ہے۔
سی پیک منصوبے پرعملی کام کا آغازہونے کے بعد خطے کے دیگرممالک میں پاکستان کی جیواسٹریٹجک اہمیت مزیدبڑھ گئی ہے۔سی پیک منصوبے سے جنوبی ، مغربی اور وسطی ایشیاء کی ریاستوں کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ، تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کی تعمیر ، ساحلی تجارت اور صنعتی سہولیات کے قیام سے خطے کے تمام ممالک خصوصاًہمسایہ ملک ایران، افغانستان، ترکمانستان، قازقستان، عمان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطراورچین میں معاشی وصنعتی انقلاب آئے گا۔
سی پیک منصوبے سے نہ صرف پاکستان اورچین نہیںبلکہ خطے کے دیگر ممالک بھی مستفید ہوں گے۔ سی پیک منصوبے کے تحت چین نے گوادرپورٹ کواچی سے ملانے کیلئے198 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کرکے کوسٹل ہائی وے بھی تعمیر کیا۔ ماہرین کے مطابق کہ اگرسی پیک منصوبے کے تحت دنیا کے مختلف ممالک اپنی کرنسی میں تجارتی سرگرمیوں کاآغازکریں گے تو اس سے پاکستان کی معاشی حالت مزیدمضبوط ہوگی مقامی کرنسی میںکاروبار سے یہاں ڈالر کی قیمت بھی کافی حد تک کمی آئے گی جس سے دیگرممالک بھی مستفیدہوںگے اوران کے کرنسی کی اہمیت بڑھ جائے گی۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری خطے کی ترقی کے لئے اس لئے اہمیت رکھتی ہے۔کیونکہ اس میں علاقائی رابطہ، ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر، توانائی کے مراکز، لاجسٹک حب، تجارت،خطے کی امن و ترقی،ثقافتی ہم آہنگی،مختلف سرمایہ کاری کے مواقع،صنعتی ، معیشت اورزراعت کے شعبے میں تعاون، سیاحت کافروغ، جامعات اورتعلیمی اداروں کے درمیان علمی تعلق،انسانی وسائل کی ترقی،شعبہ طب کی بہتری ، خصوصاًبرادرممالک کے لوگوں کے آپس میںروابط بھی قائم ہوجائیںگے۔ سی پیک منصوبے میں ذریعہ معاش میں اضافے سمیت خطے کی سلامتی اور استحکام وترقی کے ممکنہ شعبے بھی شامل ہیں۔
سی پیک منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک دیگرشہروں کے لوگ بھی مستفیدہوںگے۔ خصوصاًسی پیک مغربی روٹ مکمل ہوجانے کے بعد ڈبل کیرج وے کے ذریعے بلوچستان کے بیشتراضلاع گوادرتاخضدار، مستونگ، کوئٹہ، ژوب ، ڈیرہ غازی خان ودیگر شہرمنسلک ہوجائیںگے جس سے مقامی آبادی کیلئے کاروبارکے وسیع مواقع میسرآئیںگے۔ سی پیک روٹ پرآنے والے علاقوں کے لوگ ہوٹلنگ، ڈیپارٹمنٹل اسٹوراوردیگرچھوٹے کاروبارشروع کرکے باعزت روزگارکاذریعہ بھی حاصل کرسکیںگے۔
سی پیک منصوبے کے روٹ مکمل ہونے کے بعدجب یہاں پرٹرانسپورٹ اورگاڑیوں کی آمد ورفت شروع ہوگی تواس سے بلوچستان حکومت کوٹیکسزکی مد میں بھی سالانہ خطیرمالی مددملے گی۔ ٹرانزٹ ٹریڈکے علاوہ ضروری اشیاء ایکسپورٹ اورامپورٹ کرنے والی گاڑیوں سے ٹیکسزکی وصول کا باقاعدہ نظام شروع ہوگاجس سے بلوچستان کی معاشی صورتحال بڑی حدتک بہترہوگی۔
بلاشبہ، چین نے ہر مشکل کی گھڑی میں پاکستان کا بھرپورساتھ دے کردوستی کابھرپورحق اداکیا۔اوراب تک شاہراہ ریشم سمیت سی پیک کے دیگرمنصوبوں پرکام جاری ہے۔ امیدظاہرکی جارہی ہے کہ3218کلو میٹر پر محیط طویل راہداری منصوبہ بہت جلد مکمل ہوگا ، جس سے طویل فاصلے بہت کم ہوجائیں گے اورکاروبارمیں آسانی ہوگی، سی پیک منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف پاکستان چین بلکہ خطے کے دیگرممالک کی ایشیا،یورپ اور دوسری عالمی منڈیوں تک بآسانی رسائی ممکن ہو گی۔چائناپاکستان اکنامک کوریڈور گوادر سے کاشغر تک تقریباًتین ہزار کلومیٹر دور تک چلے گی۔
سی پیک منصوبے کے تحت جدیدریلوے نظام بھی شامل ہیں ،اس ضمن میںکراچی سے پشاور تک ریلوے ٹریک بھی بچھایا جائے گا، جس پر 160 کلو میٹر کی رفتار سے ٹرین چلے گی اس سے لوگ گھنٹوں میںسفرکرسکیںگے۔سی پیک منصوبے کے تحت33 بلین ڈالرکی لاگت سے توانائی کے شعبے کو فروغ دے کرپاکستان میں 10400 میگا واٹ بجلی بھی پیدا کی جائے گی جس سے لوگوں کی بجلی کی ضروریات پوری ہوجائیںگے۔ سی پیک منصوبے کے تحت ملک کے دیگرصوبوں کی طرح بلوچستان میںسیاحت کو بھی فروغ ملے گا اوراقتصادی راہداری کی تکمیل کے بعد سیاح نانگا پربت اور کے ٹو کے علاوہ زیارت، بولان، مکران کوسٹل ہائی وے کی ساحلی پٹی اوردیگرعلاقوں میںحسین مناظر سے بھی لطف اندوز ہوسکیں گے۔
سی پیک منصوبے کے تحت بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے نئے ہوائی اڈے گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے آزمائشی پروازوں کا آغاز رواں سال دسمبر میں ہو جائے گا۔50 ارب روپے سے زائد روپے کی لاگت سے نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ 4 ہزار 300 ایکڑ اراضی پر تعمیر کی جا رہی ہے جو ستمبر 2023ء کی مقررہ مدت سے قبل فعال ہوجائے گی۔منصوبے پرتعمیراتی کام اکتوبر2019ء میں شروع کیاگیاجس کو36ماہ کی مدت میں مکمل کرنے کاوقت مقررکیاگیاتھا تاہم COVID-19کی پابندیوں کی وجہ سے کام رک گیاتھا۔سی پیک منصوبے کے تحت مقامی لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے حکومت نے گوادر میں 50 بستروں پرمشتمل پاک چین فرینڈشپ ہسپتال کو 150 بیڈز کے سٹیٹ آف دا آرٹ میڈیکل سینٹر میں تبدیل کردیا ہے جس سے گوادر شہر کے رہائشیوں کو جنوری 2023سے صحت کی مفت سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
دوسری جانب سی پیک منصوبے کے تحت گوادر کے پرانے قصبے کی بحالی کے لیے 67 فیصد وسائل وفاق جبکہ حکومت بلوچستان گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت باقی اخراجات برداشت کرے گی۔سی پیک منصوبے کے تحت نکاسی آب ، فراہمی اور تقسیم کے منصوبے بھی جلد مکمل کرلئے جائیںگے،جس کے بعد وہاں کے علاقہ مکینوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کوبھی یقینی بنایا جائے گا۔ سی پیک منصوبے کے تحت گوادر کو پانی کی فراہمی کے مسئلے پربھی کام جاری ہے، اس کے علاوہ ڈی سیلینیشن پلانٹ کی تعمیر کا کام بھی تکمیل کے مرحلے میں ہے۔
سی پیک منصوبے کے تحت چائناکمیونکیشن کنسٹرکشن کمپنی نے گوادرپورٹ کومکران کوسٹل ہائی وے سے ملانے کیلئے 2017میں19.49کلومیٹرطویل گوادرایسٹ بے ایکسپریس وے تعمیرکرکے اس کو کراچی سے لنک کردیا۔چھ رویہ ایسٹ بے ایکسپریس وے کی تعمیرکامقصدپورٹ ، فری زون اوریہاں سے آنیوالے ٹریفک کوبآسانی نیشنل ہائی وے تک پہنچاناہے، اس سے کھانے پینے کی اشیاء سمیت ایکسپورٹ ،امپورٹ اورٹرانزٹ دیگرچیزوں کی منتقلی میں آسانی ہوگی۔
وزیراعظم میاں محمدشہبازشریف نے گزشتہ ماہ تین جون کودورہ گوادرکے موقع پرایسٹ بے ایکسپریس وے کاباقاعدہ افتتاح کیا۔ اس موقع پرتقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے منصوبے کیلئے مالی امداد فراہم کرنے پرچین کاشکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ چین نے بہت عمدہ طریقے سے ایسٹ بے ایکسپریس وے تعمیرکیاہے جس کے ذریعے پورٹ سے مستقبل میں ملک کے جنوبی علاقوں اورکراچی تک اشیاء خوردونوش اورٹرانزٹ کے سامان کی منتقلی میں مددلے گی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان گوادرکی ترقی کے عمل میں تیزی لانے کیلئے پرعزم ہے۔ چین نے گوادرمیں بجلی کامسئلہ حل کرنے کیلئے ہزاروں خاندانوں کیلئے سولرپینل بھی فراہم کئے ہیں۔
اس موقع پرPang Chunxue, Charge d’Affairs, Chinese Embassyنے اپنے خیالات کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ چین گوادرمیں مقامی آبادی کی معیشت کو بہتربنانے کیلئے پرتوجہ دے رہا ہے ، اورگوادرمیںصحت، تعلیم، ووکیشنل اورٹیکنیکل تربیت سمیت دیگرمعاشی ذرائع کوترقی دینے کاخواہاںہے۔انہوںنے کہا کہ مقامی آبادی کی مشکلات جن میں بجلی، پینے کاصاف پانی، گرین ماڈرن گوادرپورٹ کی تعمیرکے مسائل کرنے کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
منصوبے کے تحت یک مچ تا خاران بائی پاس اور خاران تا بسیمہ 88کلومیٹرطویل شاہراہ مکمل ہونے کے بعددالبندین، نوکنڈی، نوشکی، خاران، بسیمہ، واشک اوردیگرعلاقے براہ راست پاک ایران بارڈر سے منسلک ہوجائیںگے جس سے مقامی آبادی کیلئے روزگارکے زیادہ مزیدمواقع پیداہوںگے۔اس روٹ پردوردورتک چٹیل میدان اورریگستان ہے جہاں پرسی پیک منصوبے کے تحت روٹ فعال ہونے کے بعدلوگوں کیلئے مزیدسہولیات کی فراہمی یقینی ہوگی خصوصاً ہمسایہ ملک ایران سے اشیاء خوردونوش اورسبزیوں کی ایکسپورٹ اورامپورٹ میں آسانی ملے گی اوربڑی گاڑیاں وقت پرپہنچ جائیںگی جس سے ان کی چیزیں خراب نہیں ہوں گی اورانہیں مالی فائدہ ملے گا۔
سی پیک منصوبے کامستقبل روشن ہے اس سے پورے خطے میں معاشی انقلاب آئے گا۔ انفراسٹرکچراوربنیادی سہولیات کی فراہمی منصوبے مکمل ہونے کے بعدبڑی تعدادمیںسیاح اورسرمایہ کاریہاںکارخ کریںگے جس سے یہاں پرامن وخوشحالی کانیادورآئے گا۔