|

وقتِ اشاعت :   July 29 – 2022

ملک میں سیاسی عدم استحکام میں مزید شدت آگئی ہے اس وقت پارلیمان اور سپریم کورٹ مدِ مقابل دکھائی دے رہے ہیں جب سے پنجاب میں سیاسی تبدیلی آئی ہے اس روز سے قانونی اورتیکنیکی مسائل پر زیادہ بحث ومباحثہ ہورہا ہے مختلف ماہرقانون وزیراعلیٰ پنجاب کے دو فیصلوں پر بحث کررہے ہیں جن کا تفصیلی طور پر پہلے بھی تذکرہ کیا گیا ہے ۔

کہ پارٹی قیادت اور پارلیمانی لیڈر کی حیثیت آئینی طور پر کیا ہوتی ہے کس کا اثر پارٹی پر زیادہ ہوتا ہے ،ویسے عام طور پر پاکستان میں پارٹی سربراہان ہی فیصلہ کرتے ہیں اور وہی پارلیمانی لیڈر سے لے کر اپوزیشن لیڈر مقررکرتے ہیں پھر پارٹی ارکان ان فیصلوں کی تائید کرتے ہیں اگر اختلاف رائے پارٹی کے اندر ہوتا ہے تو یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں اندرون خانہ اختلافات کا شکار ہوجاتی ہیں اور الگ دھڑے تشکیل دیئے جاتے ہیں ۔

بہرحال اب مسئلہ اس وقت ملک میں سیاسی، معاشی اور آئینی مسائل کا ہے جس کی وجہ سے مشکلات بڑھ رہی ہیں اور ان کا سب سے زیادہ اثر معیشت پر پڑرہا ہے۔ جب سے سیاسی عدم استحکام میں شدت آئی ہے اسٹاک ایکسچینج میں صورتحال بہتر نہیں ہورہی ہے اور ڈالر کی اونچی اڑان جاری ہے جو قابو میں نہیں آرہا ہے، روپے کی قدر میں روزبروزکمی ہوتی جارہی ہے اگر موجودہ صورتحال کا تدارک نہ کیاگیا تو بڑے بحرانات سامنے آسکتے ہیں ،گرینڈڈائیلاگ کاذکر پہلے تو چل پڑا مگراس میں بھی کوئی واضح بیانات سامنے نہیں آئے اور ایک ٹہراؤ آگیا ہے البتہ موجودہ حکومت جو گیارہ سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد ہے ۔

اب ان کے سامنے مشکل پہاڑ ملکی معیشت کو سنبھالنا بھی ہے اور دوصوبوں کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنا بھی ہے مگر یہ اس وقت ممکن ہوگا جب کے پی اور پنجاب وفاق کے ساتھ ٹکراؤ کی نیت نہیں کرینگے لیکن واضح طو ر پر ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر برسائے جارہے ہیں تابڑتوڑ حملے بھی ہورہے ہیں پنجاب میں گورنرراج کا ذکر بھی چل رہا ہے تو پی ٹی آئی کی جانب سے وفاق کو عدم اعتماد کی دھمکی بھی دی جارہی ہے ،سیاسی ماحول بہت زیادہ گرم ہے کشیدہ ماحول میں سازگار بات چیت کیسے ہوسکتی ہے ۔

یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ موجودہ سیاسی حالات کے حوالے سے پی ڈی ایم کا اہم اجلاس منعقد ہوا ، اجلاس میں تمام قائدین نے شرکت کی جبکہ میاں محمد نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے پی ڈی ایم سربراہ مولانافضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں ملکی سیاسی صورت حال پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا گیا، اجلاس چند دن مزید جاری رہیگا جس میں حکمران اتحاد میں شامل تمام جماعتیں شریک ہوں گی، اس کے بعد مشترکہ اور متفقہ رائے سامنے لائیں گے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت وقت پورا کرے گی، الیکشن اپنے وقت پر ہوں گے، ملک کی ساکھ بچانا ہمارے لیے چیلنج ہے، معیشت کی بہتری کے لیے سال کم ہے، آئندہ پانچ سالوں میں عمران کا گند صاف کریں گے، عمران جھوٹ بول کر نوجوانوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس میں قرارداد منظورکی گئی جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ فل کورٹ کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس سپریم کورٹ بھجوائے، آئین میں ہر ادارے کا دائرہ کار متعین ہے،سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے سیاسی بحران اور افراتفری پھیلی، یہی بحران ملک میں معاشی بحران کا سبب بن رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اسی عدالت کے دو ججز نے فیصلے کو آئین میں اضافہ قرار دیا ہے ۔

پاکستان بھر کے وکلاء اور بار کونسل میڈیا اور سول سوسائٹی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو درست تسلیم نہیں کیا،اس معاملے پر صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ کو بھجوا کر فل کورٹ سے تشریح لی جائے۔البتہ اب قانونی اور آئینی جنگ کا بھی آغاز ہوچکا ہے ایک طرف پارلیمان تو دوسری طرف اعلیٰ عدلیہ ہے مگریہ کشیدگی ملک کے لیے کسی طور بھی نیک شگون نہیں ہے اگر تمام ادارے اپنے آئینی حدود میں رہ کر کام کریں تو اس ملک سے بھلا کسی حد تک ٹل سکتا ہے ،پہلے سے ہی سیاسی ماحول گرم ہے دوسری جانب اداروں کے درمیان تصادم کے بڑھتے امکانات مستقبل کے لیے خطرناک ثابت ہونگے۔ فی الحال کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ ملکی حالات کیا رخ اختیار کرینگے ۔