|

وقتِ اشاعت :   August 1 – 2022

اس وقت بلوچستان کے نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ کے ذریعے ایک مہم چلائی ہے جس میں لکھا گیا ہے ’’ ڈوبتا بلوچستان ،خاموش انتظامیہ ‘‘حالیہ بارشوں کو ایک ماہ سے زائد کا وقت گزر چکا ہے۔مگر آج تک وزیر اعظم پاکستان سمیت کسی بھی وزیر نے ایک سو بیس کے قریب سیلاب متاثرین جو انتقال کر گئے ان کے گھروں تک پہنچنے کی زحمت تک نہیں کی۔ چودہ سے زائد رابطہ سڑکوں کے پل مہندم ہوگئے ہیںپھر بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔کراچی سے لسبیلہ اور لسبیلہ سے کوئٹہ جانے والی سڑک کا برا حال ہوگیا ہے ،جو دس دن گزرنے کے باوجود تاحال بحال نہیں کی گئی ہے۔ انگریزوں کے دور کے بنائے گئے سب پل آج تک قائم و دائم ہیں مگر ہمارے دور جدید کے تمام پل پانی برد ہوگئے ہیں جو ایک انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔ حکمرانوں کاایسا رویہ دشمنوں کے ساتھ بھی نہیں ہوتا، جوبلوچستان کے لوگوں کے ساتھ ہے۔ہم لوگ دلی پر تو قبضہ کا ہر روز سوچتے ہیں۔مگر بلوچستان میں سیلاب متاثرین کیلئے کام کرنا گوارہ نہیں کرتے۔ آخر ایسا رویہ کیوں ؟ کاش اسلام آباد میں موجود قومی اسمبلی اور سینیٹ کے لوگوں کو بلوچستان کا نقشہ مل جائے تاکہ وہ بلوچستان کا دورہ کرکے بلوچستان کے عوام کی داد رسی کریں یا جھوٹی تسلیاں ہی دے دیں۔شدید بارشوں کی وجہ سے اکثر بلوچستان کے لوگ سڑکوں اور نہروں کے کناروں بچائے جانے کے منتظر ہیں۔ جن کے پاس ایک مچھر دانی تک نہیں ہے افسوس اس بات کی کہ لوگ چاند پر پہنچ گئے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کو ہیلی کاپٹر نہیں مل رہا ہے کہ کس ہیلی کاپٹر پر بلوچستان پہنچا جائے۔ بلوچستان تک پہنچنے کیلئے حکومت وقت کے نمائندوں کے پاس گاڑیوں کی بھی سخت کمی ہے یا پٹرول کے پیسے نہیں ہیں۔حالیہ بارشوں سے بلوچستان کے لوگوں کے مال مویشی، فصلیں اور گھر تباہ ہوگئے ہیں۔ اس وقت ریاست کہاں ہے؟ اس وقت حکومت وقت کہا ںہے؟ وزیر اعظم پاکستان صاحب اس وقت کہا ںہیں؟…فلڈ کنٹرول کہاں ہے…؟ این ڈی ایم اے کہا ںہے…؟ پی ڈی ایم اے کہاں ہے…؟ عدلیہ ،اشرافیہ کہاں ہے۔…؟ جو دعا زہرا کا کیس کئی ماہ تک لڑ سکتا ہے جو راتوں کو کھلتا ہے۔۔۔۔ حکومت گرانے اور بچانے کے لیے۔۔۔۔؟ آج بے یار مدد گار سڑکوں کے کنارے پر بیٹھے ہوئے لوگ کسی اعلیٰ عدلیہ کے شخص کو کیوں نظر نہیں آتے ہیںکیونکہ یہ بلوچستان ہے ۔
بلوچستان کے پہاڑی سلسلوں سے شروع ہونے والے بارشوں کے سلسلے سے جو سیلاب آیا ہے اس نے تباہی مچادی ہے، پی ڈی ایم اے نے بارشوں سے اب تک ہونے والے نقصانات کی رپورٹ بھی جاری کردی ہے رپورٹ میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں بارشوںکی وجہ سے جاں بحق ہونے والوں کی مجموعی تعداد 107 ہوگئی ہے۔ جاں بحق ہونے والوں میں 42 مرد، 30 خواتین اور 34 بچے شامل ہیں جب کہ بولان، کوئٹہ، ژوب، دکی، جھل مگسی اور خضدار میں اموات ہوئیں ہیں۔ پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ بارشوں کے دوران حادثات میں 62 افراد زخمی ہوئے جب کہ صوبے بھر میں مجموعی طور پر 6077 مکانات گرنے اور نقصان پہنچا ہے ۔پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق بارشوں سے 565 کلومیٹر پر محیط 4 مختلف شاہراہیں شدید متاثر ہوئیں جب کہ بارشوں کے باعث 712 مویشی بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔ پی ڈی ایم نے کہا کہ کل 1 لاکھ 97 ہزار 930 ایکڑ پرکھڑی فصلوں، سولر پلیٹس، ٹیوب ویل اور بورنگ کو نقصان پہنچا ہے۔اب اس رپورٹ کے بعد کون ان سیلاب متاثرین کی مدد کرے گا۔ یہ پی ڈی ایم نے بتایا ہے کیونکہ یہ بلوچستان ہے ۔بلوچستان کے منتخب عوامی نمائندے عوام کی مدد کرنے میں یکسر ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ سیلابی پانی شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔اس وقت بلوچستان میں ایک اور کربلا کی یاد تازہ ہورہی ہے۔سچ کہتے ہیں دلی دور است ،پر بلوچستان قریب است پھر بھی حکومت وقت بے بس است۔
ہم جو ٹھہرے اجنبی ……
جعفر قمبرانی
پاکستان کی معاشی حالت اس وقت ایک ڈوبتی ہوئی کشتی کی مانند ہے جسے ساحل پہ لے جانے کیلئے شاید سیاسی رہنماؤں، ادارے اور بیرونی طاقتوں نے مل کر سوچنا اور کام کرنا ہے مگر ملک بچانے کے بجائے حکمران اور سیاستدان خود کو بچاکر بیرون ملک پناہ لینے کو ترجیح دے رہیں ہیں۔ ملک دیوالیہ ہو یا نہ ہو مگر عوام دیوالیہ پن سے بھی بری حالت میںہیں اور خصوصاً بلوچستان کی عوام جنہیں دو وقت کی روٹی اور ایک گز کفن بھی دستیاب نہیں ہے۔ بلوچستان ایک ایسی ڈوبتی کشتی کی مانند ہے جو صدیوں سے کسی ساحل کی تلاش میں بے یارو مددگار طوفانی لہروں میں ہچکولے کھارہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ نہ کوئی توجہ دیتا اور نا ہی اس ڈوبتی کشتی کو کنارے پہنچانے کا سوچتا ہے۔ بلوچستان اور اسکی عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر حکمران طبقہ اپنی نا اہلی چھپانے کیلئے مسائل کو حل کرنے کے بجائے چھپا کر دبائے رکھتے ہیں۔ مگر یاد رہے بلوچستان کے سنگین حالات، فرسودہ نظام تعلیم اور بربادی کے دہانے پر کھڑی صحت، سیاست اور جمہوریت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور نہ ہی یہ مسائل نظروں سے اوجھل ہو سکتے ہیں۔ ہر خاص و عام کو بخوبی معلوم ہے کہ بلوچستان میں دلخراش واقعات کے پیچھے صرف اور صرف بلوچستان کے عوام کا نظر انداز ہونا ہے۔ درج ذیل شعر بلوچستان کی حالت زار کی بہترین عکاسی کرتی ہے
بہت ویران ہوتا جارہا ہوں
بلوچستان ہوتا جارہا ہوں
حقیقتاً بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ اسے نظر انداز کرنا ہی تو ہے۔ڈان انگلش نیوز پیپر جو ملک کا سب سے بڑا اور پرانا اخبار ہے، جس میں صوبائی دارالحکومت کراچی، لاہور اور پشاور کیلئے الگ اور مخصوص جگہموجود ہے مگر بلوچستان کیلئے اس میں ایک صفحہ تک کی جگہ نہیں جہاں اس جھلستی سرزمین کے مسائل اجاگر کیے جائیں۔ پاکستان کے ہر صوبے کے ہر دارالحکومت کے لیے ایک الگ سیگمنٹ موجود ہوسکتا ہے تو بلوچستان کیلئے کیوں نہیں؟
بلوچستان کے فرسودہ تعلیمی نظام کو نظر انداز کر کے کسی نے بھی آج تک اسے ٹھیک اور بہتر بنانے کیلئے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے۔ پرنٹ میڈیا سے لے کر تعلیم، سیاست اور دیگر معاملات میں بلوچستان کو مکمل طور پر کنارے لگادیا گیا ہے۔رہی سہی کسر حالیہ طوفانی بارشوں نے پوری کردی جن سے لسبیلہ، مکران، سوراب، قلات، نوشکی اور متعدد دیگر علاقوں میں بجلی کے کھمبوں سمیت انٹرنیٹ، موبائل ٹاورز، روڈ اور پل وغیرہ کو شدید نقصان پہنچا۔ سندھ اور بلوچستان کو ملانے والا صدسالہ پرانا پل بھی پانی میں ڈھوب گیامگر نوٹس کون لے؟ یہاں بھی صوبائی و وفاقی حکومت نے بلوچستان کو نظر انداز کرنا ہے۔ یہاں بھی میڈیا نمائندوں اور اخبارات کے صفحات نے بلوچستان کے نام کو قبول نہیں کرنا ہے ۔ بس یہی اور اس طرح کے بہت سارے واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ بلوچستان کو ہر حوالے سے نظر انداز کرکے ہی اسکے حالات کشیدگی کی طرف لے جایا گیا ہے ۔