|

وقتِ اشاعت :   August 1 – 2022

بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب کے باعث ہونے والے نقصانات کی رپورٹ جاری کردی گئی۔

صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق سیلابی ریلوں کے باعث مختلف حادثات میں اب تک 136 اموات ہوچکی ہیں جن میں 56 مرد، 47 بچے اور 33 خواتین شامل ہیں جبکہ بارشوں کے دوران مختلف واقعات میں 70 افرادزخمی ہوئے۔پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق بارشوں سے 13535 مکانات کو نقصان پہنچا اور 3406 مکانات مکمل تباہ ہوگئے، مختلف اضلاع میں 16پلوں اور 640کلو میٹر سڑکوں کو نقصان پہنچا۔پی ڈی ایم اے کے مطابق بارشوں اور سیلابی ریلوں میں بہہ کر 23 ہزار13مویشی ہلاک ہوئے، سیلابی ریلوں سے 8 ڈیم اورکئی حفاظتی بند متاثرہوئے جب کہ بارشوں سے ایک لاکھ 98 ہزار ایکڑ پر کاشت فصلوں کو نقصان پہنچا۔یہ صرف اب تک کی تفصیلات ہیں جو رپورٹ کی صورت میں سامنے آئی ہیں۔ بلوچستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جومنتشر آبادی پر پھیلا ہوا ہے مواصلاتی نظام، کمزور انفراسٹرکچر، شاہراہوں کی ابتر صورتحال سمیت دیگر مسائل پہلے سے ہی موجود ہیں مگر حالیہ بارشوں نے پورے بلوچستان کو تہس نہس کردیا ہے ۔

بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے جس کی مکمل رپورٹ اور معلومات اس لیے موصول نہیں ہورہی ہیں کہ مواصلات سمیت دیگر مسائل اس کی وجہ ہیں ۔ بلوچستان کے تمام چھوٹے بڑے اضلاع کے شہروں، دیہاتوں میں جانی ومالی نقصانات ہوئے ہیں مال مویشی مرگئے ہیں، انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں شاہراہوں، پُلیں، فصلات سب تباہ ہوگئیں ہیں۔ متاثرہ علاقوںتک رسائی ناممکن ہوچکی ہے کیونکہ زمینی رابطے منقطع ہیں فضائی آپریشن کے ذریعے امداددی جارہی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت ایک قیامت برپا ہے، بلوچستان حالیہ صورتحال کی وجہ سے بہت بڑی آفت میں مبتلا ہوگیا ہے لوگوں کا سب کچھ ختم ہوکر رہ گیا ہے اب ان کا ازالہ وفاقی اورصوبائی حکومت کی امداد سے ممکن نہیں ہے کیونکہ اس بڑی تباہی سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے وفاقی اورصوبائی حکومت کے پاس اتنی رقم نہیں کہ ملک کے نصف حصے کی تباہ حالی کو بحالی کی طرف لے جاسکے کیونکہ شہروں کے شہر اور دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔

لوگ بے سروسامانی کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں سر سے گھر کا چھت چلا گیا ہے بزرگ بچے خواتین سب کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ خوراک کی بھی شدید قلت ہے، لوگوں کا سب کچھ تباہ ہوگیاہے ان کے پاس اب کچھ بھی باقی نہیں بچا ہے کہ وہ اپنے لیے کچھ کرسکیں۔اس بدترین صورتحال سے نکلنے کے لیے وفاقی حکومت فوری طور پر عالمی ڈونرکانفرنس بلائے ،اگر تاخیر سے کام لیا گیا تو بلوچستان ایک بہت بڑے بحران میں دھنس جائے گا جس سے نکلنا مشکل ہوگا ۔صورتحال ہر گز تسلی بخش نہیں ہے آمدہ اطلاعات جو مقامی سطح سے آرہی ہیں کہ لوگوں کے پاس اب کچھ بھی نہیں ہے ،خیمے تک بھی بعض علاقوں میں دستیاب نہیں خوراک اپنی جگہ، اس گھمبیر صورتحال کو قابو کرناضروری ہے ، بارشوں اور سیلاب کے بعد وبائی امراض کے خطرات بھی منڈلانے لگے ہیں جس سے بڑے پیمانے پر انسانی بحران پیدا ہوسکتا ہے ،خدارا بلوچستان کو اب مزید نظرانداز نہ کیاجائے اس وقت غریب صوبے کے عوام پر قیامت صغریٰ برپا ہے اس کے ازالے کے لیے وفاقی حکومت کوبھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا لہذا وفاقی حکومت عالمی ڈونرکانفرنس کا اہتمام کرے تاکہ بلوچستان کو اس بڑی مصیبت اور آنے والی قیامت سے بچایاجاسکے۔