|

وقتِ اشاعت :   August 1 – 2022

عام فکری مغالطہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ دنیاکے نامور مورخین اور فلاسفر اس بات پر اختلاف رائے رکھتے ہیں لیکن یہ بات کافی حد تک درست ثابت ہوئی ہے۔ بلوچستان کے حالات تو سو فیصد تاریخ کی عکاسی کشی کرتے ہیں۔ تاریخ کے اورق پلٹئے، آپکو بلوچستان میں برطانوی سامراج کی طرزِ حکومت آج بھی رائج ملے گی۔

میر محمود خان “خان آف قلات” کے دور میں قلات کے قرب و جوار میں صرف ایک پرائمری اسکول تھا اور وہ بھی غیرسنجیدہ اساتذہ کے رحم و کرم پر تھا۔ تعلیم کے ساتھ اس کھلواڑ کی وجہ برطانوی سامراج یہ بتاتے ہیں کہ جب تعلیم عام ہوگی تو لوگوں میں سیاسی شعور بیدار ہوگا اور وہ سیاسی بغاوت پر اتر آئیں گے اور وہ قطعی ایسا نہیں چاہتے تھے۔ بلوچستان کے سرداروں کو انگریز حکومت نے چھوٹ دی رکھی تھی۔

وہ مظلوم اقوام پر ظلم کے پہاڑ توڑتے رہے۔ اس کے برعکس برطانوی حکومت ان کو تنبیہہ کرکے ظلم سے روکتا۔ میرمحمود خان برائے نام خانِ قلات تھے ۔تمام اختیارات بلوچستان کی انگریزی سامراج کے پاس تھے۔

بغور دیکھا جائے تو بلوچستان کی تاریخ میں ایک بار پھر ظلم کی اندھیری رات چھائی ہوئی ہے۔ لوگ سڑکوں پر ہیں پرامن مظاہرے کررہے ہیں لیکن حکومت جس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے اسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ عبدالقدوس بزنجو کے پاس اختیار نہیں وہ خان میر محمود خان کی طرح برائے نام وزیراعلیٰ بلوچستان ہیں۔
مون سون بارشیں جب موسلادھار بارشوں کا شکل اختیار کرگئیں تو پہلے سے ہی کچے مکان جن کی حالت خستہ تھی، موسلادھار بارشوں نے آتے ہی انہیں زمین بوس کردیا۔ بلوچستان میں اکثر گھر کچے بنے ہوئے ہیں اس لئے ان میں مسلسل بارش برداشت کرنے کی سکت نہیں ہوتی اور دوسر ایہ کہ ان سیلابی ریلوں سے پکے کے گھر بھی گرچکے ہیں۔ بارشوں سے اموات کی تعداد 126 کے لگ بھگ ہے کئی لاشیں ابھی تک زیرِ خاک ہیں۔ نوشکی ، قلعہ سیف اللہ ا ور دیگر علاقوں سے لوگ غائب ہیں ۔

سیلابی بارشوں سے اکثر اضلاع کا زمینی و مواصلاتی رابطہ منقطع ہے۔ قدرتی نقصانات کا ازالہ کرنا ٹوٹی ہڈی کو دوبارہ جوڑنے جیسا ہے وفاقی حکومت سے توقع ہے کہ وہ نقصانات کا مداوا نہیں توکچھ امداد ضرورکرے گی۔ لاوارث بلوچستان بارشوں اور سیلابی ریلوں میں ڈوب رہا ہے لیکن بلوچستان حکومت کو تو جیسے اس ساری صورتحال سے بے خبر ہے۔

نوشکی، آواران، قلعہ سیف اللہ سمیت دیگر کئی اضلاع میں خوراک کی شدید قلت پیدا ہوچکی لیکن مجال ہے کہ حکومت بلوچستان ان کی حال پرسی تک کی ہو۔ پل ٹوٹ چکے ہیں، غیر معیاری مواد سے تعمیر شدہ ڈیمز ڈھے گئے ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی ذمہ داران سے پوچھے۔ لاوارث بلوچستان کی غافلحکومتخوابِ خرگوش میںہے ۔