|

وقتِ اشاعت :   August 5 – 2022

ڈا کٹر دین محمد بزدار۔
پا کستان بننے کے جلدبعد اقتدار پرسیویلین اور ملٹری بیورو کریسی نے قبضہ کیا تھا۔بیورو کریسی اس وقت بھی اتنی طاقتور تھی جتنی کہ آج ہے ۔اسکا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بانی پا کستان محمد علی جناح کے چند اہم تقار یر ا ن کی زندگی میںسنسر ہوئے۔اس وقت بیوروکریسی کی اکثریت ہندوستانی مہا جروں اور پنجاب سے تھی ۔مشرقی پا کستان جسکی آبادی مغربی پا کستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ تھی کی بیوروکریسی میںنما ئندگی نہ ہونے کے سبب شروع سے محرومی کا شکار ہوئی۔25 سال تک نہ تو صحیح معنوں میں الیکشن ہوئے اور نہ آ ئین بن سکا۔ آخر کار 1970 میں جنرل یحییٰ خان نے ملک کی تاریخ میں پہلے آزادانہ اور غیر جا نبدارانہ الیکشن کرائے ۔ شیخ مجیب ا لرحمن کی عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی تمام نشستیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔

عوامی لیگ کو اقتدار کی منتقلی کی بجائے وہاں فوجی اپریشن شروع کیا گیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔اس وقت کے ایک سینیئر بیورو کریٹ روئیداد خان نے حال ہی میں ایک ٹی وی شو میں انکشاف کیا کہ ’’ میں نے جب صدر جنرل یحییٰ خان سے پو چھا سر یہ کیا ہوا پاکستان تو ٹوٹ گیا؟یحییٰ خان نے جواب دیا تمہارا کیا خیال ہے میں ان کا لے بنگا لیوں کی خاطر مغربی پا کستان کو خراب کرتا۔ ‘‘جنرل صاحب کے جواب سے ظاہرتھاکہ مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کا اصو لی فیصلہ پہلے ہو چکا تھا تاکہ بنگا لی اکثریت سے نجات ملے اورمغربی پا کستان کے چھوٹے صوبوں پر گرفت ڈھیلی ہو نے کا خطرہ بھی ٹل جائے۔
مغربی پا کستان جو اب پاکستان تھاکے اسمبلی ممبران نے 1973 کاآ ئین بنا یا۔ 2010 میں اس آ ئین میں صوبائی خود مختاری کا مسئلہ حل کر نے اور اسے پارلیمانی جمہوریت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر نے کے لیئے اٹھارویں تر میم کی گئی۔جس کے تحت آئین میں موجود کنکرنٹ لسٹ صوبوں کے حوالے کی گئی اور آر ٹیکل( 172 (3 میں قدرتی گیس اورمنرل آئل پروفاق اور متعلقہ صوبہ جس میں یہ معدنیات دریافت ہوں کا مشترکہ اور برابر کاحق ( joint and equal right )تسلیم کیا گیا ۔

اٹھارویں تر میم کے بعد چھوٹے صوبوں کے عوام صوبائی خود مختاری سے مطمئن ہو گئے۔لیکن بلو چستان کے لیئے صوبائی خود مختاری سے کئی گنا اہم اور حل طلب مسئلہ آ ئین پر عمل کرنے کارہا ہے۔ بلوچستان کا پاکستان میں انضمام سے لیکر آج تک ماسوائے سردار عطاء اللہ مینگل کے 9 ماہ ،شہید نواب محمد اکبر خان بگٹی کے 18 ماہ اور اختر جان مینگل کے چند ماہ کی جمہوری حکومتوں کے جو بالتر تیب بنگلہ دیش بننے، جنرل ضیاالحق کی نا گہانی موت اوربلو چستان میں ایٹمی دھماکوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی مجبوریوں کے سبب برداشت کی گئیں، کے علاوہ صو بے میں دوسری تمام حکو متیں یا تو مارشل لاء ادوار کی فوجی تھیں یا پھر بیورو کریسی کی مقرر( (installکردہ تھیں اور آج بھی ہیں۔ مقتدرہ کی سرپرستی میں بننے والی ان ہائبرڈ(hybrid ) حکومتوں کا معیار صوبے کے مفادات، مظالم اور نا انصا فیوں پرنہ صرف خاموش رہنا بلکہ پردہ ڈالنا بھی ہے۔ 75 سالہ نوآبادیاتی(colonial ) طرز حکمرانی کے سبب آج بلوچستان خطہ(region ) کا پسماندہ ترین علاقہ ہے ۔صوبے کی80 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتی ہے ۔

جب کہ دوسرے صوبوں میں غربت 40-45فیصد ہے۔خوراک کی کمی کی وجہ سے5 سال سے کم عمر52 فیصد بچوں کا قد عمر کے لحاظ سے چھو ٹا(stunted growth ) ہے۔ 16 فیصد بچے شدید غذائی قلت(Acute Malneutrition ) کا شکار ہیں۔ماؤں اور بچیوں میں خون کی کمی(animia ) عام بیماری ہے۔صوبہ دو دھا ئیوں سے پانچویں انسر جنسی کی لپیٹ میں ہے۔نو جوانوں کی جبری گم شدگیاں اور مسخ شدہ لاشیں ملنے جیسے دلخراش واقعات جا ری ہیں ۔ دوسری نا انصافی یہ کی گئی کہ بلوچ عوام کو اسکے ساحل اور قدرتی وسائل سے محروم رکھا گیا۔سوئی ڈیرہ بگٹی سے 1957 میں گیس کی پیداوارشروع ہوئی۔

اس وقت سے لیکر تقریبا ً10 ٹریلین کیوبک فیٹ گیس استعمال ہوئی۔ما سوائے بلوچستان کے یہ گیس دوسرے صوبوں میںگھریلواستعمال کے علاوہ کار خانوں، فرٹیلائزرز، بجلی پیدا کرنے اور یہاں تک کہ اینٹوں کے بھٹوں میں بھی معمولی دام پراستعمال ہوتی رہی ۔اس گیس سے دوسرے صوبوںکا انفرا سٹرکچربنا اور خوب ترقی ہوئی۔ بلوچستان کی خوشحالی تو دور کی بات ہے ڈیرہ بگٹی جہاں سے گیس نکلتی ہے ایک سروے کے مطابق ملک کے 14 پسماندہ ترین اضلاع کی فہرست میں سب سے نیچے ہے۔وہاں انسان اور جانور ایک تالاب سے پانی پیتے ہیں۔حال ہی میں گیسٹرو کی وبا پھیلنے سے ڈیرہ بگٹی کے علاقے پیر کوہ میں 30 سے زیادہ اموات ہو ئیں۔اقتصادیات کے نا مورماہر قیصر بنگالی نے اپنی کتاب ’’انصاف کی خاطر پکار‘‘ (A Cry for Justice ) میں اعدادو شمارکی مدد سے انکشاف کیاکہ سوئی گیس دریافت ہونے سے لیکر 2014 تک بلو چستان کے جائزحصے سے 7 ٹریلین (70 کھرب) روپے دوسرے صوبوں کی ترقی پر خرچ ہوئے۔

آ ئین کے مطابق معد نیات صوبائی سبجیکٹ (subject )ہیںلیکن عملی طور ان پر مر کز کا کنٹرول ہے۔بیرو نی کمپنیوں سے معا ہدے بھی وفاق اپنی مرضی سے طے کرتی ہے ۔ہائبرڈ حکو متوں کے نما ئندے صرف نشان زدہ جگہوں پر دستخط کرتے ہیں۔سیندک، ریکو ڈک، سی پیک(CPEC )اور گوادر بندر گاہ پر جو معاہدے بیرونی کمپنیوں سے طے پائے انکی تفصیلات اور جزئیات سے صوبے کے عوام بے خبر ہیں۔خدشہ ہے اگروفا قی حکومت ان کمپنیوں اور خاص کرچینی کمپنیوں کو بروقت قسطوںکی ادائیگی نہ کرسکی تو ایسی صورت معاہدوں میں کیاشرائط درج ہیں؟۔ایسا نہ ہوہمارا حشربھی سری لنکاجیسا ہو۔

مزید یہ کہ ان کمپنیوں سے معاہدے بلو چستان کے لئے غیر منصفانہ ہو تے ہیں۔جیسے گوادر بندرگاہ کی آمدنی (revenue ) میں چینی کمپنی کا حصہ 91 فیصد، وفاق کا 9 فیصد اور بلوچستان کوگوادر بندرگاہ کی ریوینیو سے مکمل محروم رکھا گیا۔اسی طرح سیندک کاپر گولڈ ما ئنز معاہدے میں چینی کمپنی کا حصہ 50 فیصد ، وفاق کا حصہ 48 فیصد اور بلو چستان کا حصہ صرف 2 فیصد ہے۔بیورو کریسی کی بلوچستان کے عوام کو حق حکمرانی سے محروم رکھنے کی ایک وجہ انکی یہ سوچ ہے کہ اگرصوبے میںجمہوری حکو متیں قائم ہوں تو عوامی نما ئندے انہیں ایسی لوٹ مار اور من مانی کرنے نہیں دینگے۔

اسی لیئے بلوچستان لیئے کبھی نام نہاد جمہوریت اورکبھی ’’گاجراور چھڑی کی پا لیسی‘‘ اپنائی گئی۔ ان پالیسیوں سے ریاستی ادارے بشمول عدلیہ متفق نظر آتے ہیں۔ ما ضی اور حال کے رویوں سے نہیں لگتا کہ حکمران مستقبل میںاپنی پا لیسیوں میں کوئی تبدیلی لائینگے ۔وہ ہائبرڈ جمہوریت یا گا جر اور چھڑی کی پا لیسی سے اپناکام چلا تے رہیں گے۔بلو چستان کی ترقی اور امن ، آئین پرمکمل عملدرآمد یعنی’’ عوام کی حق حکمرانی ‘‘(self rule )سے جڑی ہے۔آئین ریاست اور عوام کے ما بین ایک معاہدہ ہے ،جسکا احترا م دونوں پر فرض ہے۔ اگرمقتدرہ آئین کا احترام کر تے ہوئے عوام کی حق حکمرانی کو صدق دل سے تسلیم کرے تو یہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پا کستان کے عوام پر بھی احسان ہوگا۔امریکن سکالر سلگ ایس ہیریسن نے اپنے ایک آ خری انٹر ویو میں پا کستان کے مستقبل کے بارے سوال کے جواب میں کہا ’’اگر پاکستان کے آ ئین پر عمل ہوتو پاکستان کا مستقبل روشن ہے دوسری صورت میں نتا ئج سنگین ہو سکتے ہیں‘‘ ختم