بلوچستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور اس قدرتی آفت میں 163 لوگوں کی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں جن میں زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں کی ہے اس کے علاوہ مکانات، فصلوں اور سڑکوں اور پلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے جس سے صوبے کی رابطہ سڑکیں منقطع ہوگئیں تھیں ان میں سے اکثرکو بحال کردیا گیا ہے ۔نیزحکومت نے دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے سیلاب زدگان کو متاثرہ علاقوں سے ریسکیو کراکے محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا اور سیلاب زدگان کیلئے قائم ریلیف کیمپ میں امدادی اشیاء اور تیار کھانا فراہم کیا جارہا ہے۔
جبکہ ضلعی انتظامیہ کی زیرنگرانی سیلاب زدہ خاندانوں کوراشن اور دیگر ضروری اشیاء فراہم کی جارہی ہیں۔ چیف سیکرٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی نے بین الاقوامی، ملکی، امدادی اور فلاحی تنظیموں کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی تنظیموں نے ہر مشکل وقت میں صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون کیا ہے جس کو صوبائی حکومت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بارشوں سے متاثرہ اضلاع میں خیموں کی فراہمی، تیار کھانے،اشیاء خوردونوش کی فراہمی اور امدادی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری ہے اور روزانہ کی بنیاد پر متاثرین کو پکا ہوا کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی واضح ہدایات کی روشنی میں حقداروں تک ان کا حق پہنچانے اور ریلیف آپریشن کو شفافیت سے انجام دیا جارہا ہے ریلیف کیمپوں کا کمشنر خود دورہ کرکے متاثرین کیلئے جاری امدادی سرگرمیوں کی مانیٹرنگ بھی کررہے ہیں، متاثرین کی جائز شکایات کا ہرممکن فوری ازالہ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں اور غیر سرکاری اداروں کو حکومت کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ مقصد کے لیے کام کرنا ہوگا۔ اس کوشش میں بین الاقوامی اور قومی فلاحی تنظیمیں، امدادی تنظیمیں، ذرائع ابلاغ اور دانشور برابر کے شریک ہیں۔
اس کے لیے وقت بھی درکار ہے لیکن سب نے مل کر متاثرین کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنا ہوگا اور ان کی بحالی تک کوئی بھی چین سے نہیں بیٹھے گا۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت، اقوامِ متحدہ کے اداروں، امدادی تنظیموں، فلاحی اداروں سمیت شہریوں نے ہزاروں افراد کی جانیں بچائیں ہیں اور ہزاروں کو مدد فراہم کی مگر سیلاب زدہ علاقوں میں بحران اب بھی جاری ہے اور ہزاروں افراد کو بنیادی ضروریات کی کمی کا سامنا ہے۔بلوچستان حکومت کی جانب سے اب تک سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات قابل ستائش ہیں۔
مگر اس کے ساتھ ہی وفاقی حکومت بھی بھرپور تعاون کررہی ہے لیکن سب سے بڑا مسئلہ اس وقت بڑے ریلیف پیکج کا ہے جس کا ذکر پہلے بھی کیاجاچکا ہے کہ عالمی ڈونر کانفرنس بلائی جائے تاکہ دنیاکے بڑے ممالک مالی تعاون کریں اور عالمی تنظیمیں ،فلاحی ادارے، این جی اوز بھرپور طریقے سے اپنا کردار ادا کرسکیں کیونکہ اس وقت بھی صورتحال بہتر نہیں ہے ۔بلوچستان میں حد سے زیادہ تباہی ہوئی ہے یہ بہت بڑی آفت بلوچستان پرآن پڑی ہے لوگوں کی معمول کی زندگی کی بحالی سمیت نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈز درکار ہیں۔
اس وقت بلوچستان میں مسائل بہت زیادہ ہیں بارش اور سیلاب نے لوگوں کا سب کچھ چھین لیا ہے وہ اب بے سروسامانی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں ان کے پاس کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔ غذائی اجناس کی قلت کے باعث اموات کا خدشہ ہے جبکہ سیلاب کے بعد پیداہونے والی صورتحال کے دوران وبائی امراض پھوٹ پڑنے کے امکانات بھی ہیں جس کے بعد صورتحال ہاتھ سے نکل بھی سکتی ہے اس لیے ہنگامی بنیادوں پر وفاقی حکومت عالمی ڈونر کانفرنس بلائے تاکہ مزید مصیبت اور مشکلات میں گھرے بلوچستان کے غریب عوام کو بچایاجاسکے۔ امید ہے کہ وفاقی حکومت اس سنجیدہ مسئلے پر توجہ دیتے ہوئے فوری اقدامات اٹھائے گی۔