|

وقتِ اشاعت :   August 8 – 2022

8اگست 2016ء￿ ، بلوچستان کے سب سے بڑے اور مرکزی شہر صوبائی دارلحکومت کوئٹہ کے بیچوں بیچ سول سنڈیمن ہسپتا ل میں پیش آنے والا ایک خونیں واقعہ جسے آج چھ برس پورے ہورہے ہیں۔آج ہی کے دن کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر اور ملک بھر خون آلود اداسی غم اور سوگ میں ڈوب گیا تھا۔جب ’’خون خاک نشیناں رزق خاک‘‘ ہوا۔ایک ایسا دن جب صوبے کا شاید ہی کوئی ایسا ضلع یا قصبہ ہو جس میں کوئٹہ سے تابوت نہ بھیجاگیا ہو۔ روشنیوں کے شہر کراچی اور کوئٹہ سے اندرون بلوچستان تابوت بھجوانے کی روایت کوئی نئی نہیں۔ کافی عرصے سے یہ سب ہوتا رہا ہے۔ اندھے واقعات ، بہرے حکمران اور کمزور حافظوں کے حامل معاشروں میں ایسا ہونا کوئی انہونی بات بھی نہیں۔مگرآٹھ اگست کو تو حد ہی ہوگئی۔اس دن شاید ہی یہاں ایسی کوئی آنکھ بچی ہو جو اشکبار نہ ہوئی ہو۔ایک ایسا دن جب دن دیہاڑے شب خون مارا گیا ،جب عقل و شعور کی ایک کھڑی فصل پل بھر میں کاٹ دی گئی جب60گھروں کے روشن چراغ بجھا نے کے لئے ایک ایسی باد صر صر چلی کہ سب کچھ دھندلا دھندلا دکھائی دینے لگا۔ صوبے کے مرکزی شہر اور دارلحکومت کوئٹہ کے وسط میں قائم صوبے کا قدیم سول سنڈیمن ہسپتال اس وقت معصوم انسانوں کے مقتل میں بدل گیا جب بلال انور کاسی کی میت لینے کے لئے ہسپتال آئے وکلاء￿ اور ان کی کوریج کے لئے موجود صحافیوں کے بیچ ایک زور دار دھماکہ ہوگیا۔

یہ دھماکہ بھی اپنی نوعیت کے دیگر دھماکوں کی طرح اپنے پہلو میں کشت وخون کا ایک بازار سجا کر چلا گیا۔ ایک ایسا منظر جس میں صرف آہ و بکا تھی۔موہوم ہچکیاں، کرب و اذیت اور ابتلاء￿ سے بھری چیخیں ،آن کی آن میں سب کچھ خلاص۔ 8اگست2016ء￿ بلوچستان کی معلوم تاریخ کے سیاہ ترین ایام میںسے ایک ہے۔لئے نہیں کہ یہاں پہلے اس طرح کے واقعات رونما نہیںہوئے گزرے دس برسوں کے دوران یہاں اس طرح کے درجنوں واقعات رونما ہوئے جن میں سیکورٹی اہلکاروں سے لے کر عام عوام تک ، علماء￿ کرام سے لے کر سیاسی رہنما?ں تک ، تاجر ، صنعتکار، اقلیتی برادری کے لوگ غرض ہر طبقے کے لوگ نشانہ بنے یقینا ان سب کی زندگیاں قیمتی اور ان کا غم پہاڑ برابر تھا ایک ایک انسانی جان جو دہشت گردی اور وحشت پسندی کا نشانہ بنی قیمتی تھی مگر8اگست 2016ء￿ کو سول ہسپتال کوئٹہ میں جو واقعہ پیش آیا اس میں بیک وقت ایسے درجنوں لوگ نشانہ بنے جن کی نہ صرف زندگیاں قیمتی تھیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کے لئے بھی تحریک کاباعث تھے۔

یہ واقعہ بلوچستان کا نائن الیون تھا۔ جسے بدقسمتی سے اس وقت صوبے کی ایک جماعت کے سربراہ نے 1935ء￿ کے زلزلے سے تشبیہ دی۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ واقعہ1935ء￿ کے زلزلے جیسا ہر گز ہر گز نہیں تھا جو لوگ اسے اس حادثے سے تشبیہ دیتے ہیں وہ شاید نہیں جانتے کہ حادثات اور واقعات میں زمین و آسمان کا فرق ہوا کرتا ہے۔
یہ تو بلوچستان کا نائن الیون تھا جس نے نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر اور پوری دنیا میں ہر اس شخص کے رونگھٹے کھڑے کردیئے جو انسان اور انسانیت کی اہمیت سے واقف و آگاہ ہے۔ سانحہ8اگست 2016ء￿ نہ صرف کوئٹہ بلکہ بلوچستان کی معلوم تاریخ کا ایک ایسا زخم ہے جس کے درد سے اٹھنے والی ٹھیس شاید ہی کبھی کم ہوسکے البتہ وہ خلا ء￿ کبھی پر نہیں ہوگا جو اس سانحہ میں شہید ہونے والوں کے جانے سے پیدا ہوا ہے۔ 8اگست2016ء￿ کو سول ہسپتال کوئٹہ میں جو کچھ ہوا وہ بظاہر بلوچستان میں دہشت گردی اور انسانیت سوزی کے انہی واقعات میں سے ایک ہے جو یہاں گزشتہ چند سالوں سے تواتر کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں اس تناظر میں اسے 1935ء￿ کے زلزلے سے تشبیہ دینا ایک عجیب سی بات ہے 1935ء￿ کا زلزلہ ایک آفت تھی جسے حادثاتی تناظر میں لیا جاتا ہے جبکہ8اگست کا واقعہ حادثاتی نہیں واقعاتی پس منظر کا حامل ہے اور حالات وواقعات جیسے بھی ہوںکہیں نہیں کہیںجاکر حاکم وقت سے ان کا کوئی تعلق ، کوئی رشتہ نکل آتا ہے مہذب معاشروں میں جب اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو حاکموںکا ضمیر چیخنے لگتا ہے مگر ہمارے ایسا نہیں۔ بقول فیض
ہے اہل دل کے لئے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
بہت ہے ظلم کہ دست بہانہ جو کے لئے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
8اگست2016ء￿ کو ایک انسانی آفت دھماکے کی شکل میں رونما ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بلوچستان کے روشن چراغوں کو بجھا کر چلی گئی۔ایسے ایسے لوگ خاک و خون میں مل کر رہ گئے کہ آج بھی فقط ان کا نام سن کر جھرجھری سی آجاتی ہے۔ شہداء￿ کی لمبی اورایک ایسی فہرست جس میں شامل ہر نام اس صوبے کے لئے امید کی کرن تھا مگر وائے افسوس کہ امید کی کرنوں کو پیوند خاک کردیاگیا۔ شہداء￿ کی فہرست پر نظرڈالیں پھرارد گرد کے حالات پر۔یقیناً کسی بھی انسان کی جان قیمتی ہوتی ہے اورخون کسی بھی انسان کا بہے وہ انمول ہوتا ہے مگر اس واقعے میں ایک ساتھ جس طرح سے معاشرے کے باشعور اور اعلیٰ تعلیمیافتہ افراد کو نشانہ بنایا گیا وہ ہماری جدید تاریخ کا ناقابل فراموش باب بن گیا ہے۔

ایک ایسا باب میں جس میں حاکمان وقت سے لے کر ایک عام سیاسی کارکن تک سبھی کی حقیقت معلوم کی جاسکتی ہے۔ دھماکے کے ایک ’’ دھپ ‘‘ میں اڑتے ہوئے انسانی چیتھڑے، ایک دوسرے کا نام پکارتے زخمی ،لوگوں کو انصاف دلانے کا عزم لے کر عدلیہ سے منسلک ہونے والے کالے کوٹ پہنے وکیل جن کی موت قانون کے ترازو میں بے انصافی کے پلڑے کو اور بھاری کر گئی۔ کیمرہ مین محمودد اورشہزاد جو فرض کی ادائیگی کرتے ہوئے کلمہ پڑھ کر شہید ہوگئے ، میڈیا مالکان کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی صحافتی تنظیمیں جو یہ پتہ نہ چلاپائیں کہ کیونکر شہزاد اور محمود کے کیمرے انشورڈ تھے اور یہ کیمرے چلانے والے غیر انشورڈ۔ڈاکٹر شہلا اور فوٹو گرافر جمال ترکئی جیسے لوگ جو جان ہتھیلی پر لے کر اپنے اپنے فرض کی تکمیل میں لگے رہے اس ناقابل فراموش باب میں سبھی کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔

اس باب میں ہمیں یہ تلخ حقیقت بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت کتنی تھی۔ صوبے کی تاریخ کے اس سیاہ باب میں جھانکیں تو ہر طرف المیے دکھائی دیں گے ،صوبے کے سب سے قدیم ہسپتال میں ادویات کی عدم فراہمی کا المیہ ، بروقت طبی امداد نہ ملنے پر ایڑھیاں رگڑتے زخمیوں کا المیہ ، عوام کی نمائندگی کا دعویٰ رکھنے والوں کی عوام سے لاپرواہی کا المیہ، ایک المیے سے نکلتا دوسراالمیہ اور المیے درالمیے …!!