ظلم کی مزاحمت انسان ہی نہیں ہر جاندار کی فطرت کا حصہ ہے۔ معمولی چیونٹی کو بھی تکلیف پہنچانے، ہلاک کرنے یاراستے سے ہٹانے کی کوشش کی جائے تو وہ مزاحمت کرتی ہے۔ افراد کی طرح قوموں کی بقا کا انحصار بھی مظالم کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ ہر ظالم مظلوموں سے مکمل خود سپردگی کا تقاضا کرتا ہے اور اْس سے کم پر راضی نہیں ہوتا۔ لیکن ظلم و سفاکیت کے مقابلہ میں خود سپردگی کا رویہ اختیار کرنے والی قوم کا مقدر یہی ہوتا ہے
کہ وہ کچل اور مسل ڈالی جائے۔ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مزاحمت کے معقول طریقوں کو اختیار کیے بغیر کسی قوم نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں سے نجات حاصل کی ہو یا خود ظالم نے رحم کھا کر اس کی جان بخشی کردی ہو۔ ظلم کے مقابلہ میں ڈٹ کر کھڑا ہونا یقینا آسان کام نہیں ہے۔ یہ قدم قدم بلائوں کی راہ ہے اور قربانیوں کے نذرانے کے بغیر اس راہ سے گزرنا ممکن نہیں۔ لیکن ظلم سے نجات کی بس یہی ایک راہ ہوتی ہے۔
ظلم و ستم اور نسل کشی کی حکمت عملیوں کے نتیجے میں تمام تر مقبوضہ یورپ میں نازیوں کے خلاف مزاحمت نے جنم لیا۔ اگرچہ نازیوں کے اولین ہدف یہودی ہی تھے، اْنہوں نے بھی نازیوں کے جبر و ستم کے خلاف مجموعی اور انفرادی سطح پر کئی انداز میں مزاحمت کی۔ نازیوں کے خلاف یہودیوں کی سب سے مضبوط مخالفت منظم مسلح بغاوت کی شکل میں سامنے آئی۔ سب سے بڑی مسلح بغاوت وارسا کی یہودی بستی یا گھیٹو میں اپریل۔ مئی 1943 میں ہونے والی بغاوت تھی جس کی وجہ یہ افواہیں تھیں کہ نازی گھیٹو میں باقی رہ جانے والے افراد کو پولینڈ میں واقع ٹریبلنکا قتل گاہ میں بھجوانے والے ہیں۔ جرمن فوجیں جونہی گھیٹو میں داخل ہوئیں، یہودی لڑاکا تنظیم (زائڈوسکا آرگنائزیکجا بوجووا یعنی زی۔ او۔ بی) نے جرمن ٹینکوں پر دستی بم پھینکے۔ اگرچہ نازیوں کے پاس ہتھیار اور نفری کہیں زیادہ تھی اْنہیں گھیٹو کو تباہ کرنے اور باقی ماندہ مزاحمت کاروں کو باہر نکالنے کیلئے 27 دن تک لڑائی جاری رکھنی پڑی۔
ولنا اور بایالسٹاک کے علاوہ متعدد دیگر یہودی بستیوں میں بھی بغاوت کی آگ بھڑکی۔ اِن بستیوں کے مزاحمت کار جانتے تھے کہ اس طرح کی تھوڑی بہت فوجی مزاحمت یہودیوں کو اجتماعی ہلاکت سے نہیں بجا سکتی۔ لیکن پھر بھی یہ لوگ یہودی عزت و آبرو کو بچانے اور نازیوں کی جانب سے بہت بڑی تعداد میں یہودیوں کی ہلاکت کا انتقام لینے کیلئے لڑتے رہے۔
ہر ظلم کی مزاحمت کے نتیجہ میں ظالم کی شکست اور ظلم کے خاتمہ پر۔
بلوچ شروع دن سے ہی ظلم کی زد میں آتے رہے ہیں۔ بلوچ قوم میں سیاسی مزاحمت اس درجہ پر آچکی ہے کہ نتیجہ اب ظلم کے خاتمے یا کوئی اورسنگین صورت میں نکل سکتاہے۔ صاحبِ حضور دانشور معاملے کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے روزِ اول سے بلوچستان کے مسائل کو ڈائیلاگ سے حل کرنے کا عندیہ دیا ہے لیکن مقتدرہ حلقے نے بڑے دل کا مظاہرہ نہیں کیا آج معاملہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ آئے روز کسی کے لاپتہ ہونے کی خبر ملتی ہے لیکن جو حاصل مقصود تھا اسکے برعکس نتیجہ مزاحمت کی صورت میں نکل رہا ہے۔
باقی دنیا کو چھوڑ کر پاکستان ایک ایسا واحد ملک بن چکا ہے جس میں نہ اعلانیہ طور پر آمریت نافذ ہے اور نہ ہی بظاہر حقیقی جہوریت نافذ ہے۔ اس ملکِ بے کساں میں جہاں بالادست طبقے کے لئے عدالت رات کو کھلتی ہے وہیں بلوچ ماہیں، بہنیں سڑکوں پر پچھلے 16 روز سے کوئٹہ گورنر ہاوس کے سامنے ریڈزون میں احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں لیکن کون کم بخت یہ پوچھنے کی جرات بھی کرے کہ یہ شدیدگرمی اور بارشوں میں کیوںکر اس حد تک مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ ریڈزون میں پچھلے 17 روزسے احتجاج پر بیٹھنے پرمجبور ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف دو بار کوئٹہ کا دورہ کرچکے ہیں لیکن انہیں بھی یہ توفیق نہیں ہوسکی کہ وہ ان سے جاکر ملتے اور ان کے مطالبات سنتے۔ یہ بات قطع نظر کہ وزیراعظم شہباز شریف لاپتہ افراد کے مسئلے پر اپنی بے بسی کا اظہار بہت پہلے ہی کرچکے ہیں لیکن وہ اس مسئلہ پر مقتدرہ حلقوں سے بات کرسکتے ہیں۔ موجودہ الائنس حکومت نے اگر اس مسلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو حکومت سمیت اتحادیوں کو سخت سیاسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ موجودہ حکومت جس پوزیشن میں ہے اس پر اگر اخترمینگل بضد رہے تو مسئلہ کافی حدتک حل ہوسکتا ہے۔