گزشتہ چار پانچ مہینوں سے پورے مکران میں ایرانی تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے تمام لوگوں کو متاثر کیا ہوا ہے۔عالمی سطح پر ڈالر کے اْتار چھڑاؤ کی وجہ سے پاکستانی تیل کی قیمتوں میں جونہی اضافہ ہوتا ہے ایرانی تیل کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں یا بڑھائی جاتی ہیں
حالانکہ اسمگلنگ شدہ تیل کا ڈالر مارکیٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ڈالر کی اونچی اور نیچی اڑان سے ایران پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔دوسری جانب اگر پاکستانی تیل کی قیمتیں کم ہوجاتی ہیں لیکن ایرانی تیل کی قیمتوں میں کسی بھی قسم کی کمی نہیں ہوتی اور عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ تیل کی پْرانی اسٹاک ہے اِس لیے مجبوراً اِسے اْسی داموں فروخت کیا جارہا ہے۔ ایرانی باڈر پر بیٹھا مافیا قیمت کا تعین خود کرتا ہے اور روزانہ لاکھوں لیٹر ایرانی تیل بذریعہ کوسٹل ہائی وے یا سی پیک روٹ ایم 8 سے اندرون سندھ اور پنجاب اسمگل کیا جاتاہے۔
ایرانی تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے زندگی کے ہرشعبے کومتاثر کیا ہے جس میں ماہی گیر بھی شامل ہیں۔
پہلے یہی کہا جاتا تھا کہ ایرانی بارڈر پر سیکورٹی فورسز کی کاروائی اور چھوٹے تاجران سے بڑے پیمانے پر بھتہ وصولی کی وجہ سے ایرانی اشیاء کی ترسیل میں دشواری کا سامنا ہے اور اِس دشواری اور بھتہ کلچرل کے خاتمے کے لیے اور ایرانی بارڈر کے حوالے سے مکران میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے اندر جتنے بھی احتجاج اوردھرنے دئیے گئے بظاہر اْس سے عام عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔
ایرانی بارڈر پر موجود سرمایہ دار طبقہ جنہیں اب مافیا کا نام بھی دیا جارہا ہے طاقت ور حلقوں کی آڑ میں بھرپور طریقے سے اپنا کام کررہا ہے اور اسمگلنگ کے اِس کام سے ملکی خزانے کو ایک ٹکا فائدہ بھی نہیں پہنچ رہا اور عام آدمی کی زندگی میں بھی کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ ایرانی اشیاء جو پہلے مکران میں سستی تھیں ، اب بنسبت مکران کے اندرون سندھ سستی ہیں یہاں تک کے اسلام آباد جو پاکستان کے مہنگے ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے وہاں بھی ایرانی کیک اْسی قیمت پر ملتا ہے جس قیمت پر وہ مند اور جیونی شہر میں ملتا ہے اس کا تجربہ مجھے گزشتہ سال اسلام آباد یاترا کے موقع پر ہوا۔
ایرانی گیس کی صورت حال بھی یہی ہے ٹنوں کے حساب سے یہ گیس اندرون پنجاب فیکٹریوں کے لیے جارہی ہے اور مکران میں ایرانی گیس کی قیمتیں کم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔
گزشتہ سال 2021 میں ،جب مَیں نے ایرانی گیس اسمگلنگ پر ایک تحقیقاتی رپورٹ پر کام کرنا شروع کردیا اور بڑی مشکل سے ایرانی گیس کے ایک ڈیلر سے رابطہ کرکے اْس سے معلومات لیں اور مزید معلومات کے لیے جب میں نے بارڈر پر موجود کچھ لوگوں سے بات کی تو وہاں مجھے ہر طرف بندوق تھامے لوگوں کی چاپ سْنائی دی۔ایرانی گیس کے ایک ڈیلر نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اِس سبجیکٹ پر کام نہ کروں تو بہتر ہے اْس کے مطابق طاقتور مافیا نے ایرانی بارڈر کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے لیا ہے جو کسی کو بھی برداشت نہیں کرسکتے۔اْنہوں نے انکشاف کیا کہ یہاں پر عنقریب دو مافیا کے مابین لڑائی شروع ہونے والی ہے اورمجھے یہی لگتا ہے کہ ایرانی بارڈرایک بندوق بردار قوت سے نکل کر دوسری بندوق بردار قوت کے چنگل میں چلاجائے گا۔
ایرانی تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث بلوچستان کے ساحلی علاقے اورماڑہ ،پسنی ،گوادر، جیونی سمیت جتنے بھی چھوٹے بڑے علاقے ہیں وہاں کے ماہی گیر 90فیصد متاثر ہوچکے ہیں اور ماہی گیر سمندر نہیں جارہے ماہی گیروں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔شاید چند سلجھے ہوئے ماہی گیر ہی اب اس بات کو سمجھ پائیں کہ یہ بھی ٹرالرمافیا اور تیل مافیا کا ایک اندرونی گٹھ جوڑ ہے،
ایرانی تیل کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے ماہی گیر سمندر نہیں جارہے دوسری جانب غیرقانونی ٹرالنگ بدستور جاری ہے ۔باڈر تیل مافیا اْن ٹرالر والوں کو سمندر بیچ انتہائی سستے داموں ایرانی تیل فروخت کررہے ہیں تاکہ وہ آسانی سے ٹرالنگ کرسکیں ،ماہی گیروں کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ انہیں دو طرح کے طاقت ور مافیا کا سامنا ہے۔
جو معلومات مجھ تک پہنچی ہیں اْن کے مطابق ایرانی لانچ غیرقانونی فشنگ میں مصروف ٹرالرز کو ایرانی تیل انتہائی سستے داموں فروخت کرتے ہیں تازہ اطلاع یہ ہے کہ اب اْنھیں ایرانی خوردونوش کی اشیاء بھی فراہم کی جارہی ہے اور پیسے کا حساب کتاب کراچی میں بیٹھے ایجنٹ کرتے ہیں۔
ضلع گوادر کے دوسرے علاقوں کو چھوڑئیے ،ایک اندازے کے مطابق صرف تحصیل پسنی میں دوسو سے زائد ماہی گیری کشتیاں ایرانی تیل کے مہنگے ہونے کی وجہ سے ساحل کنارے لنگرانداز ہیں اور کوئی بھی سرکاری ادارہ اْن کی حال پْرسی نہیں کررہا۔
ایرانی بارڈر سے مرمتی کاموں کے لیے جو سیمنٹ مناسب قیمت پر مل رہی تھی وہ بھی اب انتہائی مہنگے داموں فروخت کی جارہی ہے پہلے ایک بوری سیمنٹ کی قیمت 650 روپے تھی لیکن ایک مہینے کے اندراندر اْس کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے چھوٹے علاقوں میں ایک بوری سیمنٹ 1100روپے کی فروخت کی جارہی ہے ،سیمنٹ کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے بلاک سے لیکر عام استعمال ہونے والی کپریل لانٹر کی قیمت میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
پہلے بجری والی ایک بلاک کی قیمت 19/18 روپے تھی اب فی بلاک 32 روپے تک فروخت ہورہی ہے اب اِیسے حالات میں کوئی غْریب مکان کیسے بنا سکتا ہے۔
ہرطرف نفسانفسی ہے کسی بھی چیز کے اضافی دام کو کنٹرول کرنا حکومتی مشینری کے بس سے باہر ہوچکا ہے اس سلسلے میں جب میں نے ایک سرکاری اعلیٰ عہدہ دار سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے آخر یہ ہوشربا قیمتیں کب کنٹرول ہونگی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اب مکران میں ہرچیز مافیا کے چنگل میں چلا گیاہے پہلے لوگ کاروبار کرتے تھے اپنے لوگوں کو سہولیات پہنچاتے تھے
اگر کہیں پر کوئی خودساختہ مہنگائی ہوتی تو کمشنر،ڈپٹی کمشنر کو چھوڑئیے لیویز کا ایک عام رسالدار جاکر بیوپاریوں سے ملاقات کرکے چیزوں کی قیمتیں مناسب کرادیتا لیکن اب حالات یہ ہیں کہ لوگ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی بات بھی نہیں سْنتے کیونکہ چند حلقوں کو جانب سے کاروباری لوگوں کو مافیا ٹائیکون بنا دیاگیااور اِن کے من میں جو آتا ہے یہ ویہی کرتے ہیں ،حکومت ادارے سب انکے سامنے بے بس ہیں۔