|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2022

سیلاب سے رشتہ ہم بلوچستان کے باسیوں کا بہت پرانا ہے جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے یہ سیلاب آتے جاتے دیکھے ہیں کبھی دریا سندھ کا پانی ہمیں ڈبوتا ہے تو کبھی ہمیں ناڑی بینک، کبھی دریائے مولا تو کبھی بلوچستان کے ناکارہ سیم شاخ ہمیں پانی برد کرتے ہیں۔ ہمارے پیارے بلوچستان کے لوگوں کا گھر بار، اناج سب کچھ یہ پانی چھین لیتا ہے۔
حالیہ دریائے مولا اور ناڑی بینک کینال کے سیلابی ریلے سے متاثر ہونے والے ان گھرانوں کی سسکیاں اور آہیں سننے والا کوئی نہیں ہے۔ حالیہ سیلابی ریلوں نے اپنے پیاروں کو گھروں سے بے دخل کر دیا۔ جن کے مال مویشی اور اسباب سب کچھ پانی کی نظر ہو گیا ہے۔ یہ سب گھرانے اس وقت کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوئے ہیں۔ سیلاب متاثرین کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں، اس کو بیان کرنے کے لیے لفظ نہیں مل رہے ۔ ازراہ کرم ان سیلاب متاثرین کے خشک لبوں پر لرزتے ہوئے فریاد کا کوئی تو نوٹس لے۔
میرے بلوچستان کے سیاست دانو ہوش میں آؤ کیا کرو گے اس اقتدار کا۔۔۔۔۔کیا کرو گے اس سیاست کا۔۔۔۔۔ جو مشکل وقت میں بھی کرسی کرسی کا کھیل جاری رکھتا ہے۔۔۔۔ بلوچستان ڈوب رہا ہے آپ لوگوں کو اپنی لڑائیوں سے فرصت نہیں ہے۔
اس وقت بلوچستان کے سیلاب متاثرین پانی کے کم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ۔ایک مصیبت کے گزرنے۔ برے دن ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اچھے دن شروع ہونے کی خوشی کا انتظار کر رہے ہیں اس خوشی کو وہی محسوس کرسکتے ہیں جنہیں کبھی ایسی آفات سے واسطہ پڑا ہو۔
اے حکمرانو ہم نے آپ کو کیا کیا نہیں دیا، پورے ملک کے گھروں کے چولہے جلانے کے لئے گیس دی۔ پورے ملک کا سب سے بڑا سونے اور معدنیات کا ذخیرہ ریکوڈک دیا۔ ملک کو روشن کرنے کے لیے اوچ پاور پلانٹ جیسا بڑا منصوبہ دیا تاکہ آپ لوگوں کے گھر کی بتیاں کبھی بند نہ ہوں۔ کیا ہوا ،اے حکمرانو سوچو ایٹمی ملک بنانے کے لیے اپنی زمین دی ،دنیا کا پہلااسلامی ایٹمی ملک ہمارے ہی زمین کی وجہ سے بنا۔ اے حکمرانو ۔ بلوچستان میں لوگ در بدر ہیں سیلابی پانی لوگوں کے گھر بار سب کچھ چھین لے گیا ہے۔ اس وقت ڈوبتے بلوچستان کو سہارے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر سہارا نہیں بن سکتے تو کم از کم دل آزاری کرنے کا حق آپ کے پاس نہیں ہے۔
آج سیلاب سے شدید متاثرہ بلوچستان کے علاقوں سے نت نئی دکھ بھری کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ مال و متاع فصلات گھربار سب پانی کی نظر ہوگئے ہیں اپنے اور بچوں کی زندگیاں بچا کر روڈ کنارے یا نہروں کی پشتوں پر آکر بیٹھ گئے ہیں۔مگر المیہ یہ ہوا کہ کھانے کو روٹی اور پینے کو پانی تک میسر نہیں۔ وہ لوگ جن کے لمبے دسترخوان ہوا کرتے تھے اب خود محتاج ہوگئے۔ بقول سیلاب متاثرین کے غریب کسان اور بزگر اپنے بیوی بچوں سمیت بھوکے کھلے آسمان تلے سوتے ہیں۔ بارش سیلاب بھوک سے لڑتے رہے۔ کسی امیر و صاحبان شہر میں اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ چند دیگ پکوا کر وہاں متاثرین میں تقسیم کرتا۔ بلوچستان کے سیلاب متاثرین کواب کئی سال اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں لگے گا۔ ضروری ہے کہ اس وقت سرکار و انتظامیہ وڈیرے بوتار میر نواب پیر نکل کر خود سروے کرکے ریلیف کا کام کریں اور پانی اترنے کے بعد بحالی کے کام کو بھی میرٹ پہ کریں تاکہ غریب آدمی اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے۔ اس وقت ڈوبتے بلوچستان کو سرکار و انتظامیہ کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیموں سیاسی رہنماؤں اور امراء اور صاحب حیثیت احباب کو بھی سیلاب متاثرین کے دکھ میں برابر شریک ہونا چاہیے۔ اللہ سیلاب متاثرین کو آسانیاں فراہم کرے۔