|

وقتِ اشاعت :   August 16 – 2022

بلوچستان، جس کا نام سْن کر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور اقوام میں گریویٹی کی سی ایک کشش پیدا ہوتی ہے اور کیوں نہ ہوں کیونکہ بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے جسے قدرت نے وہ سب کچھ عطا کیا ہے جو کسی ملک یا قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے تمام قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان، پاکستان کے دیگر صوبوں کی نسبت سب سے کم ترقی یافتہ ہے۔ بہترین سیاسی قیادت کا فْقدان، علمی شعور کی کمی اور اندرونی خلفشار کی وجہ سے بلوچستان کو اگر مسائلستان کہا جائے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ تعلیم اور صحت کا فرسودہ نظام، روزگار اور معاش کے مستقل و مستند ذریعوں کا محدود ہونا ، ساحل اور میرین لائف کے تحفظ کا مسئلہ، جس سے بیشتر لوگوں کا معاش جْڑا ہوا ہے اور دورِ حاضر کا سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ہر ذی روح و ذی شعور انسان کا قومی، معاشرتی اور مذہبی فریضہ ہے وہ ” منشیات کی لعنت ” ہے۔
ساحلِ بلوچستان جیونی سے لے کر گڈانی تک، جس پر پوری دنیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ چونکہ سمندر دنیا میں ایکسپورٹ اور امپورٹ کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ ہے اسی لیے دنیا کے بیشتر ممالک میں اسی ذریعہ کو مستعمل کرکے اجناس کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ انہی اجناس میں سب سے اہم اور منافع بخش جنس منشیات ہے۔ جو مختلف شکلوں میں ایک ملک سے دوسرے ملک میں غیرقانونی طریقے سے اسمگل کیا جاتا ہے۔ منشیات دنیا کے مختلف سمندری راستوں سے گزر کر عوام تک پہنچتی ہے اور اس بزنس کو دور حاضر کا سب سے منافع بخش بزنس شمار کیا جاتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کی تمثیل کے بطور ہم انسانی نسل کشی کی اصطلاح استعمال کر سکتے ہیں۔
ضلع گوادر (جو نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے لیے بھی مرکزیت کی حیثیت رکھتی ہے) خصوصی طور پر تحصیل پسنی اور اس سے ملحقہ دیہی علاقوں میں منشیات کا زہر اس قدر پھیل چکا ہے جس کا تدارک ہی نوجوان نسل کی بقاء کا ضامن ہے وگرنہ ہم ایک ایسے بے حس معاشرے کی ترویج کے ذمہ داروں میں شامل ہوں گے جہاں پر کسی فرد کے زندگی کا واحد مقصد صرف نشے کا حصول ہوگا۔ دور حاضر میں جہاں دوسری قومیں تعلیم کو اپنا شعار بنا کر آسمانوں تک رسائی حاصل کرنے کے درپے ہیں تو دوسری طرف ہم منشیات جیسی لعنت کو اپنے اوپر مسلط کرکے زمین میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ ہمیں انفرادیت نے اس حد تک بے حس بنا دیا ہے کہ ایک پانچ سالہ بچہ بھی چرس، آئس، شیشیہ، کرش، شراب وغیرہ بآسانی خرید سکتا ہے اور اسے روکنے والا کوئی نہیں۔ ہر گھر میں نشے کے عادی افراد موجود ہیں جن کی موجودگی سے ان کے اپنے گھر کے اشیاء تک محفوظ نہیں کیونکہ انہیں تو نشہ ہر قیمت پر چاہیے اگر پیسے ملے تو ٹھیک نہیں ملے تو چوری ہی سہی۔ ہر چند کہ سارے معاشرے کو اس برائی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بیشتر نوجوان منشیات کے استعمال کی وجہ سے یا تو ذہنی توازن کھو چکے ہیں یا ان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے۔ دوسری جانب منشیات فروش روزافزوں ترقی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔ وہ معاشرے میں بہت ہی اعلیٰ مقام رکھتے ہیں اور ہم انہیں انتہائی معتبر تصور کرتے ہیں۔ لیکن اب اس سوچنے کو بدلنے کا وقت آ گیا ہے۔ ہم تو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا نعرہ لگانے والے ہیں۔ ہر چند کہ ہم اس درجے کے مومن نہیں کہ برائیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے اعلان جہاد کریں مگر ہم میں سے اتنا تو ہر کوئی کر سکتا ہے کہ برائی کرنے والے کو باعزت و معتبر نہ گردانے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سالانہ اربوں روپے کا بجٹ منشیات کی روک تھام کے لیے مختص کیے جاتے ہیں اگر یہ پیسوں کا ضیاع نہیں تو اور کیا ہے؟ آئینِ پاکستان مختلف محکمہ جات کی ذمہ داریاں وضع کرتا ہے اور ساتھ ہی ان کو پابند بھی کرتا ہے کہ تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سرانجام دیں تاکہ ملکی ترقی کے لیے راہ ہموار ہوسکے۔ تو پھر کیا وطن عزیز میں منشیات کی روک تھام کے لیے کوئی ادارہ نہیں بنا گیا؟ بالکل ادارہ نہیں بلکہ ادارے بنائے گئے…. تو انہی اداروں کے اربابِ اختیار سے دردمندانہ اپیل ہے کہ خدارا منشیات کی اس لعنت کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرنٹ مین کا کردار ادا کریں۔ کیونکہ منشیات کی اس وبا نے کتنے ہی گھروں کے چراغ بجھا دئیے ہیں اور کتنے چراغ بجھنے کے درپے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جو منشیات کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہا ہو۔
دوسری طرف دست بستہ اپیل ہے اہل علم و دانش سے کہ وہ اجتماعیت کو فروغ دے کر لوگوں میں اس شعور کو بیدار کریں کہ نشے کی لعنت نسلوں کو ایسے چاٹ جاتی ہے جیسے دیمک لکڑی کو، لہذا ایسی صورت حال میں اپنے علم و دانش کا مفید استعمال کرنا انتہائی لازمی ہے تاکہ علاقہ و قوم کو اس موذی وبا سے نجات دلا سکیں۔ امید ہے اجتماعی کوششوں اور حق پر ثابت قدمی سے منشیات جیسی تباہی پر جلد قابو پایا جائے گا۔