|

وقتِ اشاعت :   August 16 – 2022

پاکستان بننے کے وقت، ملک کو لاہور میں پنجاب یونیورسٹی وراثت میں ملی، جو کہ ہندوستان راج کی 16 یونیورسٹیوں میں سے واحدتعلیمی درسگاہ تھی۔ 75 سال بعد، 120 سے زیادہ سرکاری طور پر تسلیم شدہ یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ تقریباً اتنی ہی تعداد میں غیر تسلیم شدہ ادارے جنہوں نے خود اپنے آپ کو تدریسی یونیورسٹی قرار دیا ہے وجود رکھتی ہیں۔ کالج کی تعداد 30-35 سے 1,500 یا اس سے زیادہ ہو گئی ہے لیکن ان سب کے باوجود ایسا لگتاہے کہ اعلیٰ (معیاری) تعلیم ناپید ہو چکی ہے ۔
عام طور پر کامیابی کے دعوے: زیادہ تر یونیورسٹیاں اکثر اساتذہ کے نام کے ساتھ پی ایچ ڈی کا لاحقہ لگا کر اپنی پی ایچ ڈی پروفیسرز کی اضافی شدہ فہرست پر فخر کرتی ہیں اور اعلیٰ و شاندار پیمانے پر بڑی تعداد میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں عطا کردی جاتی ہیں کہ تحقیق پروان چڑھ رہی ہے۔ ایک آدھ لطیفہ یہ ہے کہ پروفیسرز آج کل اتنے تحقیقی مقالے اور کتابیں شائع کر رہے ہیں کہ ان کے پاس جو کچھ وہ لکھتے ہیں اسے پڑھنے کا بھی وقت نہیں ملتا۔ لیکن یہ حقیقت میں اب کوئی مذاق نہیں رہا!
پاکستان کے اعلیٰ ترین قومی اعزاز کے حامل ایک ’سپر اسٹار‘ پروفیسر کو تین سالوں میں ریاضی کے ایک ہزار (1,000) تحقیقی مقالوں کے لکھنے کا سہرا دیا جاتا ہے۔ تقریباً ایک دن میں ایک مقالہ۔ ایک دوسرا پروفیسر ہر سال کیمسٹری ریسرچ میں اوسطاً 25 موٹی کتابیں (تقریباً ایک کتاب ہر دو ہفتے میں) اور سالانہ درجنوں مقالے شائع کرواتا ہے۔
2020 میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی نے مبینہ طور پر دنیا بھر کے 159,683 سائنسدانوں میں سے 81 پاکستانی سائنسدانوں کا انتخاب کیا، یہ من گھڑت فسانہ ابھی تک گردش میں ہے حالانکہ اسٹینفورڈ نے اس رپورٹ کی واضح طور پر تردید بھی کردی ہے۔
ان تمام’کامیابیوں‘ کے لیے، یونیورسٹیوں اور ان کے کیمپسوں کے اندر فکری ناقابل برداشت سڑن کی بدبوپھیل چکی ہے۔ ایک باکمال مصنف سے پوچھا جائے کہ وہ اپنے تحقیقی کام ایک سنجیدہ قاری کے سامنے پڑھے تو اس کے بال کھڑے ونا شروع ہوجاتے ہیں۔ نایاب ہیں ایسے پروفیسر، ڈین، یا وائس چانسلر جو اپنی ذہنی تسکین کے لیے کتابیں پڑھتے ہیں یا کسی موجودہ تعلیمی موضوع پر سمجھداری سے بحث کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر پروفیسر ایک ایسی سنجیدہ ( فکشن یا کچھ اور) کتاب کا نام بھی نہیں لے سکتے جو انہوں نے آخری دفعہ پڑھی ہو۔
ایسے پروفیسر ، ڈین یا وائس چانسلر بھی بالکل نایاب ہیں جو اپنی کلاس میں انگریزی یا اردو زبان میں نحوی طور پر درست طریقے سے اکیڈمک لیکچر دے سکیں۔ لسانی طور پر کم مائیگی کے شکار اس ملک کے لیے مہارت اور قابلیت کے معیار میں گھٹائو معمول کی بات تصور کی جاتی ہے۔ لکھنے کی مہارت؟ یہاں تک کہ اسمارٹ فونز اور کمپیوٹرز کی مدد سے درستگی کی سہولت کے باوجود یہ سمجھنا کہ ایک پروفیسر یا طالب علم واقعی کیا کہنا یا لکھنا چاہتا ہے ہمیشہ واضح نہیں ہوتا۔ اعلیٰ مثالیں تو موجود ہیں لیکن یہ صرف مستثنیات میں شامل ہیں۔
تعلیمی غربت اس وقت مزید واضح ہوجاتی ہے کہ جب بزنس ایڈمنسٹریشن اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ جیسے عام شعبوں سے نکل کرمشکل مضامین جیسے ریاضی اور طبیعیات کے شعبوں کی طرف نظر دوڑاتے ہیں۔وہ بیس تیس (20-30) یونیورسٹی جو یہ مشکل مضامین پڑھاتے ہیں ان کے صرف چند درجن پروفیسرز ہی بارویں جماعت کے Aگریڈ کے ریاضی یا طبیعیات کے مسائل حل کر سکتے ہیں یا کسی ایسے ویتنامی طالب علم سے مقابلہ کرسکتے ہیں کہ جس نے ابھی تک یونیورسٹی میں داخلہ ہی نہ لیا ہو۔
سماجی علوم اور لبرل آرٹس کے مضامین نسبتاً بہتر ہیں۔ لیکن پروفیسرز اور طلباء کو ان دیکھی ممنوعہ سرحدوں یا سرخ لکیروں کے بارے میں ضرور فکر کرنی چاہیے۔ علمی آزادی کے خوشنما تجریدی اصولوں کی پرچار کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا جبکہ درآمد شدہ مغربی نظریات کی توہین کی جاتی ہے۔ یہی مسئلہ فلسفہ کے شعبے کو درپیش ہے کہ جس میں چیزوں کو سمجھنے اور دریافت کرنے کے لیے مکمل آزادی درکارہوتی ہے۔ مختلف یونیورسٹیوں میں فلسفے کے نو شعبوں کے باوجود، کیا کوئی کسی ایک پاکستانی فلسفی کا نام لے سکتا ہے جسے فلسفیوں کی عالمی برادری نے قبول کیا ہو؟
ایک ابھرتاہوا بدصورت پہلو: کچھ یونیورسٹیاں چوری چھپکے بڑی ڈھٹائی سے ڈگریاں بیچتی ہیں، پروفیسرز اعلیٰ گریڈ کے بدلے طلباء سے رقم یا کسی اور چیز کا مطالبہ کرتے ہیں۔ منتظمین تقرریوں کے معاملات طے کر کے اپنی ذاتی آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں، اور جنسی ہراسانی اس وقت تک ٹھیک ہے جب تک کہ یہ مکمل طور پر منظر عام پر نہ آئے۔ اگرچہ طلباء یونین انتہائی مذہبی ہوتے ہیں ، نماز میں باقاعدگی سے اور توہین رسالت کرنے والوں کا قلع قمع کرنے کا شوق رکھتے ہیں، مگر پھر بھی ان میں سے زیادہ تر امتحانات میں دھوکہ دہی اور نقل کے کلچر سے مطمئن ہیں۔
اس بگڑے ہوئے نظام کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے کوئی یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ کس چیز نے ایسے دانشورانہ ریگستان پیدا کئے جو شاذ ونادر ہی نخلستان کی طرف توجہ دیتے ہیں؟ اس کا جواب تاریخ خود دے گی۔
ماضی کی شان و شوکت کی خوابوں کی دنیا میں رہتے ہوئے، دو صدیاں پہلے شمالی ہند کے مسلمان جدید سیکولر تعلیم اور نئے یورپی نظریات کی آمد کے خلاف کمربستہ ہو گئے تھے۔ سائنس، انگریزی زبان اور جدید علوم سیکھنے کے لیے سید احمد خان کی بہادرانہ کوششوں کو کچھ کامیابی شاید ضرور ملی لیکن وہ کافی نہیں تھی۔ ان کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جسے ’’مسلمان ہند کا ہتھیار‘‘ کہا جاتا ہے، آخر کار آگے جا کر تحریک پاکستان کی بنیاد بن گئی۔ تاہم، ان کی امیدوں کے برعکس، علی گڑھ یونیورسٹی آکسفورڈ یا کیمبرج بننے میں ناکام رہا۔
غیر مدرسہی تعلیم کی قبولیت سست اور سخت شرائط کے ساتھ قابل قبول تو تھی لیکن اس کو رائج ہونے میں بھی عرصہ لگا۔ تقسیم کے وقت، زیادہ تر پروفیسر ہندو تھے جو فسادات شروع ہونے کے ساتھ ہی ہندوستان بھاگ گئے۔ خالی سینئر عہدوں کو جونیئر مسلم پروفیسروں اور لیکچراروں کی مدد سے پْر کیا گیا جس میں مناسب طریقہ کار کو نظرانداز کرکے سیاسی تقرریوں کی مدد سے کم صلاحیتوں کے حامل پروفیسرز اور لیکچرارز کو ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ، ڈین اور وائس چانسلر بننے کی اجازت دی گئی۔ ان نئے ’’گیٹ کیپرز‘‘ کو اپنے اختیارات کے معاملے میں درپیش ممکنہ چیلنجز کے بارے میں ہمیشہ سے شبہ تھا اس لیے ہر نئی نسل پچھلی نسل سے علمی معیار کی نسبت پیچھے کی جانب چلتی گئی۔تنزلی کی بہترین مثال ہمارا آج خود واضح کرتا ہے۔
اس معاملے کو سلجھانے کے لیے دو مختلف سمتوں کا تعین کیا گیا۔ پہلے جنرل مشرف کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کے بعد آسمان سے امریکی ڈالروں کی بارش ہوئی۔ سرکاری اخراجات کو تعلیم پر خرچ نہ کرنے کی اجارہ داری جیسے اعتراضات ختم کردیئے گئے۔ نئی یونیورسٹیاں اور ان کی نئی پْرشان عمارتیں، پروفیسروں کے لیے زیادہ تنخواہیں، مقالوں کی اشاعت کے لیے نقد رقم، پی ایچ ڈی کے لیے وظیفے، بیرون ملک اسکالرشپ اور چمکتے ہوئے نئے آلات کے ساتھ نئے مواقع اْمڈ آئے۔
جبکہ دوسرا اور حال ہی میں نظم و ضبط اور تنظیم کے نام پر کچھ بڑی یونیورسٹیوں کی قیادت ریٹائرڈ فوجی افسران کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ اسلام آباد کی یونیورسٹیوں میں اب ایسے کئی سربراہان موجود ہیں۔ ان ’’ریٹائرڈ ‘‘ ہونے والوں نے یونیورسٹیوں کے حسن ابدال اور کوہاٹ کے کیڈٹ کالجوں کے طرز کے کنٹرولڈ ورژن بنائے ہیں حتی کہ لباس اور بالوں کے انداز کو بھی سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے جس طرح کہ انسانی خیالات کو۔
آگے کا راستہ کیا ہے؟ اگر الہٰ دین کے دھوئیں والے چراغ سے کوئی جن کہیں سے نمودار ہو جائے اور مجھ سے تین خواہشات مانگے تو میری فہرست یہ ہو گی:
پہلا، میری خواہش ہے کہ پاکستانی پروفیسرز ایک اخلاقی کمیونٹی کا حصہ بن جائیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تعلیمی کارکردگی کے علاوہ کسی بھی دوسری وجہ سے طالب علم کو انعام یا سزا نہ دیں۔ وہ اگر کسی ایسے سوال کا جواب جو نہیں جانتے تو یہ بہانہ نہ کریں کہ دراصل وہ اس چیز کو جانتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے نہیں جانتے؛ تحقیقی مقالہ اس وقت تک شائع نہ کروائیں جب تک کہ اس میں کچھ نیا اور اہم نہ ہو۔ اپنے دوستوں کے غیر قانونی حرکتوں پر پکڑے جانے کے بعد ان کا دفاع نہ کریں، اور یہ بھی نہ سوچیں کہ آپ اپنی تنخواہ کے اصلی حقدار ہیں جب تک کہ آپ واقعی اس کے لیے محنت نہ کریں۔
دوسرا، میری خواہش ہے کہ ہم سب روزانہ پیدا ہونے والے علم کی وسیع مقدار سے پرجوش ہوں۔ کیونکہ اس کے بعدہی ہم خود سیکھنے اور علم حاصل کرنے کے جدوجہد کے عمل میں شامل ہوسکیں گے۔ ناقابل یقین حد تک تیزی سے تبدیلی کی دنیا میں، آپ نے کل جو یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کی ہے اس کی اہمیت کل کی نسبت آج زیادہ کم ہے۔ جب تک پروفیسرز اپنے اپنے میدان میں بدلتے رجحانات کے مطابق نہیں چلیں گے وہ اپنے طلبہ کو متاثر نہیں کر سکیں گے۔
تیسرا، میری خواہش ہے کہ تمام اساتذہ اور منتظمین اپنی اخلاقی ذمہ داری کو تسلیم کرتے ہوئے ایسے نوجوان پیدا کریں جو اپنے لیے سوچ سکیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تعلیم کے اندر موجود اب غالب آمرانہ روایات کو ختم ہو جانا چاہیے۔ طالب علموں کی طرف سے مصنوعی عزت کا حقدار بننے یا بنوانے کے بجائے، ہر استاد کو اعلیٰ سطح کی پختگی اور علم کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس عزّت کے رتبے کو سنجیدگی اور وقار کے ساتھ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
امید ہے کہ الہٰ دین کا یہ جن میری خواہشات کو پورا کرے گا لیکن کہیں سے مجھے وہ جادوئی چراغ نہیں مل رہا۔
مضمون نگار یونیورسٹی میں فزکس کے استاد اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔(بشکریہ ڈان)