جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جسے آسان الفاظ میں عوام کی حکومت کہی جا سکتی ہے۔ آمریت کے برعکس اس طرز حکمرانی میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں۔ جمہوریت کی دو بڑی قسمیں ہیں: بلا واسطہ جمہوریت اور بالواسطہ جمہوریت۔ بلاواسطہ جمہوریت میں قوم کی مرضی کا اظہار براہ راست افراد کی رائے سے ہوتا ہے۔ اس قسم کی جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہوسکتی ہے جہاں ریاست کا رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام کا یکجا جمع ہو کر غور و فکر کرنا ممکن ہو۔
اس طرز کی جمہوریت قدیم یونان کی شہری مملکتوں میں موجود تھی اور موجودہ دور میں یہ طرز جمہوریت سوئٹیزلینڈ کے چند شہروں اور امریکا میں نیو انگلینڈ کی چند بلدیات تک محدود ہے۔
جدید وسیع مملکتوں میں تمام شہریوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور اظہار رائے کرنا طبعاً ناممکنات میں سے ہے۔ پھر قانون کا کام اتنا طویل اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ معمول کے مطابق تجارتی اور صنعتی زندگی قانون سازی کے جھگڑے میں پڑ کر جاری نہیں رہ سکتی۔ اس لیے جدید جمہوریت کی بنیاد نمائندگی پر رکھی گئی۔ چنانچہ ہر شخص کے مجلس قانون ساز میں حاضر ہونے کی بجائے رائے دہندگی کے ذریعے چند نمائندے منتخب کر لیے جاتے ہیں جو ووٹروں کی طرف سے ریاست کا کام کرتے ہیں۔ جمہوری نظام حکومت میں عوام کے دلوں میں نظام ریاست کا احترام پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں نظام حکومت خود عوام یا عوام کے نمائندوں کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے۔ مگر یہ جذبہ صرف اس وقت کار فرما ہوتا ہے جب عوام کی صحیح نمائندگی ہو اور اراکین مملکت کا انتخاب درست اور شفاف ہو۔
پاکستان کے قیام سے لیکر آج تک بدقسمتی سے جمہوری حکومتوں کو چلنے نہیں دیا گیا۔ پاکستان میں روزِ اول سے غیرعلانیہ آمریت نافذ ہے جبکہ بظاہر جمہوری نظام رائج ہے یہ پاکستان میں جمہوریت کی تاریخ رہی ہے۔ جمہوری نظام میں صوبوں کو جو حقِ حاکمیت دی جاتی ہے وہ سارے اختیارات صرف کاغذات اور آئینی شقوں میں موجود ہیں لیکن عملی طور پر ویسے ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو جو اختیارات حاصل ہیں ہر حکومت اس آئینی ترمیم کو روندتا چلا آرہا ہے۔
اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی رہا ہے کہ یہاں قانون پر عمل درآمد نہیں ہوتا، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ قانون کے محافظ ہی قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں جسکے باعث مسائل کے واحد حل اور ظلم کے خاتمے کو مسلح جدوجہد سے حل کرنا واحد راستہ تصور کرلیا جاتاہے۔ جب مظلوم قوموں کو ہیچ سمجھا جائے تو صورتحال سنگین تر شکل اختیار کرجاتی ہے اور مظلوموں کے زخموں پر مرہم لگانے کے بجائے ہمارا ملک بلوچوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کا کام بخوبی سرانجام دے رہا ہے۔ 14 اگست کو اسلام آباد میں رقص و سرور کے محافل چل رہے تھے جبکہ بلوچستان میں موت کا رقص جاری ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ خوشی نہ منائیں شوق سے منائیں لیکن اگر ذرا ایک نظر بلوچستان کی محرومیوں کی جانب دوڑائیں اور دل میں ایک ذرہ بھی احساس کا ہو تو یہ محض ایک مضحکہ خیزعمل لگے کا جشن نہیں۔ بلوچستان کے جن اضلاع کو سیلاب زدہ قرار دیا گیا ہے ان میں ریلیف کا کوئی خاص بندوبست تاحال ممکن نہیں بنایا جاسکا ہے۔ حالیہ سیلابی بارشوں نے پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے وفاق کو چاہئے کہ پورے بلوچستان کو نہ صرف آفت زدہ قرار دے بلکہ امدادی سرگرمیوں کو یقینی بناے اور ان پر تیزی سے عمل درآمدکو یقینی بنائے۔