70سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ملک میں جمہوری نظام مضبوط ہونے کی بجائے کمزور دکھائی دے رہا ہے جس کی سب سے بڑی ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ریڈلائن کراس کیا، اداروں کو آئین کا پابند کرنے کی بجائے اپنے ذاتی وگروہی مفادات پر لگادیئے، سیاسی انتقامی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا، من پسند قانون سازی کی گئی، نظام کی ایسی کی تیسی کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایسے انگنت مواقع سیاسی جماعتوں کو ملے کہ وہ پارلیمان کو مضبوط کرتے ہوئے میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت جیسے فارمولے پر چلتے اور سب کو آئین کا پابند کراتے اور خود اس پر ایمانداری سے عمل پیراہوتے۔
اس سے قطع نظر کہ ماضی میں ان کے ساتھ کس سیاسی جماعت نے کیا رویہ اختیار کیا، انہیں تُن کر رکھا ،دیوار سے لگاتے ہوئے ان کی درگت بنائی۔ ان سب کو بھول کرمستقبل کی طرف دیکھتے مگر ایسا نہیں کیا گیا جس کی باری آئی اس نے اپنے مخالفین کے ساتھ مزید دوقدم آگے بڑھ کر اپنا بدلہ لیا اور اس جنگ اور کھینچاتانی میں اداروں کو ملوث کیا جس کی وجہ سے اب تک سیاسی استحکام پر فریادیں کی جارہی ہیں جب سیاسی عدم استحکام ہے تو میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت کوئی معنی نہیں رکھتے۔ سب سے اہم ادارہ پارلیمان ہے جب اس میں سیاستدانوں کی بجائے صنعتکار ،مفادپرست شخصیات آجائیں تو کیا توقع اور امید لگائی جاسکتی ہے۔
کہ یہ سیاسی ارسطو بن کر ملک کے لیے بہترین قانون سازی کرینگے ،قطعاََ نہیں بلکہ وہ اپنی مکمل وصولی ہی کرینگے اور ان کے لیے لوٹا بننا کوئی معیوب بات نہیں جس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ جب بھی اسمبلی کے اندر قانون سازی، بجٹ پاس کرنے سمیت وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ، اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کا معاملہ آتا ہے تو سیاسی جماعتوں کی دوڑیں لگ جاتی ہیں کہ ان کے ارکان وفاداریاں تبدیل نہ کریں۔ عجب سا تماشا لگارہتا ہے اراکین کو پابندسلاسل کرتے ہوئے انہیں ہوٹل میں رکھا جاتا ہے ہاؤسز میں خفیہ رکھا جاتا ہے جسے گہما گہمی کہاجاتا ہے مگر ایک سرکس لگارہتا ہے ۔ سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ اب بھی یہی کہاجاتا ہے۔
کہ ہمیں پارلیمان کو مضبوط کرنا ہے مگر کس طرح اور کیسے اس بنیادی سوال کا جواب ہائیں شائیں کرکے دیا جاتا ہے ،اس سے نظام پر کیا اثر پڑتا ہے اس سے انہیںکوئی سروکار نہیں۔ اس سیاسی جنگ نے ڈویژن بنادیئے ہیں اداروں کے اندر مداخلت نے تقسیم پیدا کیا ہے اس بحرانی کیفیت میں سیاستدان ہوش کے ناخن ہی نہیں لے رہے بلکہ اپنے بیانیہ کو مضبوط اور مؤثر ثابت کرنے کے لیے میڈیا کو بھی تقسیم کردیا گیا ہے، کوئی کسی کے بیانیہ کو اٹھاکر چل رہا ہے تو دوسرا کسی اور کے بیانیہ کو لیکر چار قدم آگے چل رہا ہے جس میں میڈیا مالکان بھی ذمہ دار ہیں ان صحافیوں کے ساتھ جو باقاعدہ ایک سیاسی ورکرکی طرح سیاسی جماعتوں کے بیانیہ کو اینگل دیکر پیش کرتاہے اور براہ راست نشتر برساتے ہوئے اسے صحافت کہتے ہیں۔ جب قانون کا اطلاق ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے۔
کہ میڈیا کی زبان بندی کی جارہی ہے جو ریاست کا چوتھا ستون ہے یہ بھی ایک غلط تاثر ہے کہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے بلکہ میڈیا کا کام رپورٹ کرنا ہے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں ڈاکومنٹ کرکے سامنے لانا ہے تاکہ حقائق لوگوں تک پہنچ سکیں مگر افسوس آج میڈیا بھی کمزور پڑچکا ہے۔ اب بھی اگر حالات کی نزاکت کو نہ سمجھا گیا اور اپنے تئیں معاملات کو چلایاگیا تو بہت بڑے مسائل پیدا ہونگے، اس لیے خدارا قانون اور آئین کی بالادستی کو یقینی بناتے ہوئے پارلیمان کو مضبوط کیاجائے جب تک پارلیمان کمزور رہے گا جمہوریت اور معیشت دونوں ہی بحرانات سے نہیں نکل پائینگے۔