|

وقتِ اشاعت :   August 20 – 2022

بلوچستان میں اس سال توقع سے زیادہ بارشوں نے صوبے بھر کو جھل تھل کرکے رکھ کر دیا ہے۔ حالیہ بارشیں طویل قحط سالی کے بعد ہوئی ہیں یقینا شروع میں بارشوں سے بلوچستان کے قحط زدہ عوام خوش ہوئے تاہم مسلسل بارشوں کی وجہ سے ان کی خوشی بعد میں غم میں بدل گئی، مسلسل اور لگاتار بارشیں صوبے کیلئے رحمت کی بجائے زحمت یا عذاب بن کر عوام کو مصیبت میں مبتلا کر گئیں ۔صوبے کا مشرقی حصہ ہو یا جنوبی، شمالی ہو یامغربی ،بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رہ سکا ہے کوئٹہ جسے لٹل پیرس کہہ کر عوام کو لولی پاپ دیا جاتا رہا ہے وہاں بارشوں نے بھی بڑی تباہی مچائی۔

کوئٹہ شہر و مضافات کے کچے مکانات منہدم ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی جانیں بھی ضائع ہوئیں، متعدد گاڑیاں سیلاب کی نظر ہوئیں۔ جھل مگسی، لسبیلہ ،آواران،کوئٹہ، قلعہ عبداللہ ،چمن ،نصیرآباد، سبی، ہرنائی ،موسی ٰخیل، شیرانی، پشین ،جعفرآباد، صحبت پور، کوہلو ،بارکھان ،نوشکی ،پنجگور، تربت ،خاران، خضدار، مستونگ ،مسلم باغ، لورالائی سمیت صوبے کے تمام اضلاع متاثر ہوئے ۔باغات ،دھان ،کپاس سمیت تمام فصلیں تباہ ہو گئیں، درجنوں ٹیوب ویلز زمین برد ہوئے یا سیلابی ریلے کی نظر ہو گئے صوبے کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ۔کوئٹہ ،کراچی اور کوئٹہ ژوب خضدار سکھر اور کوئٹہ جیکب آباد روڈز کی متعدد پلوں کو سیلاب نے منہدم کردیا یا پھر روڈ سیلابی ریلے میں بہہ گئیْ متعدد جگہ روڈز میں شگاف پڑھنے اور روڈ سلائڈنگ کے باعث اہم قومی شاہرائیں بند ہو چکی ہیں۔ نصیرآباد جھل مگسی جعفرآباد صحبت پور دریائے ناڑی دریائے بولان دریائے مولہ اور دریائے گھگھہی سیلابی پانی کے مکمل لپیٹ میں ہیں ۔نصیرآباد ضلع کی پچاس فیصد آبادی سیلاب سے متاثر ہو چکی ہے چھتر ربیع لانڈی تمبو منجھو شوری بابا کوٹ میر حسن سیلابی پانی کی نظر ہو چکے ہیں جہاں سینکڑوں لوگ متاثر ہوکر مٹی کے بلند ٹیلوں اور سڑک کنارے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ہزاروں لوگ حکومتی امداد کے منتظر ہیں لیکن حکومتی امداد محدود ہونے کے باوجود کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر کے مصداق متاثرین کی مدد کی جا رہی ہے۔

ڈپٹی کمشنر نصیرآباد نے میڈیا بریفنگ میں دوسو لوگوں کو ٹینٹ فراہم کرنے کے دعوے کئے ہیں لیکن متاثرین کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کیا نصیرآباد میں اہل ثروت لوگ نہیں؟ کیا نصیرآباد میں دیگر سیاسی قائدین مشکل کی اس گھڑی میں عوام کی مدد کو پہنچے؟ اس سوال کا جواب نہیں میں ہوگا تاہم ہماری سیاسی قیادت بالخصوص اپوزیشن سیاسی بیانات کی حد تک متاثرین کی ہمدردی کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن مشکل کی اس گھڑی میں سابق صوبائی وزیر پی پی رہنما میر محمد صادق عمرانی نے پہل کرکے متاثرین میں خوراک اور کھانا تقسیم کرکے دیگر قائدین کیلئے مثال قائم کر دی ہے لیکن اس کے باوجود اب تک دیگر سیاسی رہنماء متاثرین کی مدد کو نہیں پہنچ سکے ہیں ۔نصیرآباد سے تعلق رکھنے والے دو صوبائی وزرا ء حاجی محمد خان لہڑی اور میر سکندر خان عمرانی کئی دنوں سے علاقے میں موجود ہیں اور ان کی نگرانی میں ضلعی انتظامیہ ٹینٹ راشن تقسیم کر رہی ہے تاہم متاثرین کا مکمل سروے ہونے اور تعداد کے تعین تک تمام متاثرین تک حکومتی امداد کی فراہمی ممکن نہیں ہو سکتی۔

جبکہ دوسری جانب صوبے کے وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو اب تک چین کی بانسری بجا رہے ہیں انہوں نے کسی بھی علاقہ کا نہ تو دورہ کیا ہے اور نہ ہی ہنگامی امداد کا اعلان کیا ہے ۔اگر صوبائی حکومت کے پاس وسائل نہیں ہیں تو صوبائی حکومت وفاق سے سیلاب متاثرین کی مدد کا مطالبہ کر سکتا ہے اور پھر وزیر اعلیٰ عالمی ڈونرز کانفرنس بلا کر این جی اوز سے متاثرین کی مدد کی اپیل کرکے متاثرین کی بحالی کیلئے کردار ادا کر سکتی ہے۔ صوبائی حکومت صرف پی ڈی ایم اے اور این ڈی ایم اے پر انحصار کرنے کے بجائے این جی اوز کی کانفرنس بلا کر انہیں بلوچستان میں ہونے والے سیاب اور بارشوں سے نقصانات کے ازالے اور متاثرین کی مدد کرنے کاموقع دے تاکہ صوبے کی انفرسٹرکچر اور عوامی مشکلات اور متاثرین کی دوبارہ آبادی کاری کا مسئلہ حل ہو سکے۔

دوسری جانب این جی اوز کی بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں پر کردار ادا نہ کرنے اور ڈونرز کو موبلائز نہ کرنے اور این جی اوز کی خاموشی سماجی خدمات سے انحراف کے مترادف ہے این جی اوز مصیبت مشکلات مصائب میں اپنی خدمات بلا رنگ ونسل سرانجام دیتی ہیں عالمی ڈونرز اور بڑے بڑے این جی اوز کی جانب سے بلوچستان کو مصیبت کی اس گھڑی میں اور صوبے کے تباہ کن حالات میں بے یارومدگار چھوڑنا انسانیت کی خدمت کے اصولوں کی صریحا ًخلاف ورزی کے مترادف ہے لیکن عالمی ڈونرز اور نیشنل این جی اوز کے علاوہ مقامی این جی اوز کی جانب سے خاموشی بھی انسانیت کی خدمت اور انسانی حقوق سے انحراف کے مترادف ہے ۔اب موقع ہے کہ وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ بلوچستان مشترکہ طور پر عالمی دنیا سے بلوچستان سمیت ملک کے سیلاب بارشوں سے متاثرہ علاقوں اور متاثرین کی بحالی، مدد اور دوبارہ آباد کاری کیلئے ڈونرز کانفرنس بلائیں بالخصوص بلوچستان میں اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں اور انٹرنیشنل ڈونرز سے اپیل کریں تاکہ وہ بلوچستان کے متاثرین کی بحالی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ بلوچستان ملک کا انتہائی پسماندہ اور غریب صوبہ ہے جہاں بارشوں نے پورے صوبے میں تباہی مچا رکھی ہے اب سیاست اور لولی پاپ کی بجائے عوام کی حقیقی معنوں میں دلجوئی کرکے ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کا نادر موقع ہے اور یہ سیاست اور انسانیت کی خدمت کا بہترین نمونہ بھی ہے۔ اللہ تعالی ٰہمارے ارباب اختیار کو ایسا کرنے کی ہمت اور توفیق دے۔