|

وقتِ اشاعت :   August 23 – 2022

بلوچستان کی 80 فیصد آبادی سیلاب کی زد میں آچکی ہے لوگ بے گھر ہوچکے ہیں اور کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبورہیں۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کی 80 فیصد آبادی اس سیلاب سے متاثر ہوچکی ہے اور لوگ بے یار مدد گار پڑے ہوئے ہیں۔ حکومتی اقدامات متاثرین کو ابھی تک نہیں پہنچ سکے۔ یہ تھی الجزیرہ رپورٹ جبکہ جیو نیوز کی 60 سیکنڈ کی رپورٹ کچھ یوں ہے سندھ اور بلوچستان بھی سیلابی ریلیوں سے بری طرح متاثر ہوچکے ہیں حکومت امدادی ٹیمیں متاثرین کی بروقت امداد میں مصروف۔ نہ حقائق واضح ہیں اور نہ ہی رپورٹ بذاتِ خود رپورٹنگ کے لئے متاثرہ علاقوں میں بھیجے گئے ہیں جہاں سے وہ زمینی حقائق دیکھ سکتے بالکل اپنے کیمرے سے ،وہ حقائق دنیا اور ہمارے بے حس حکمرانوں کو دکھاتے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ مناسب ہے کہ کیا ہمارے نام نہاد میڈیا مالکان اور رپورٹرز اس سیلابی بارشوں کے تباہی کے مناظر سوشل میڈیا میں نہیں دیکھتے یا انکے نظروں سے نہیں گزرے ہوں گے؟ یقیناً جواب ہاں میں ہوگا۔ تو پھر کیوں وہ ان حقائق کو سکرین پر نہیں دکھاتے۔

اسے میڈیا کی آزادی کہیں یا پھر میڈیا کی پابندی۔ چلیں اسے کچھ حقائق سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چند دن پہلے میری پاکستان کے معروف کالم نگار پرویز فتح صاحب سے وٹس ایپ پر ایک سیرِ حاصل گفتگو ہوئی۔ انہوں نے کہا بلوچستان سے بہت کم لکھاری اور صحافی ایسے ہیں جو واقعی بلوچستان کے جینوئن مسائل پر لکھتے ہیں۔ ویسے تو آج کل کوئی بلوچستان کے مسائل پر لکھنے کی زحمت تک نہیں کرتا البتہ بلوچستان کے اپنے باسی بھی۔ میں نے کہا جناب آپکی قلم بھی کبھی ہم پر مہربان نہیں ہوئی ہے۔

ہم چاہ کر بھی بلوچستان کے مسائل پر نہیں لکھ سکتے ،وہ کیوں؟یہ پوچھ کر بات کو ذرا گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کی تو پرویز صاحب کا کہنا تھا بلوچستان میں پرویز مشرف کے دور سے میڈیاکا بلیک آئوٹ شروع ہوا جو اب تک نافذ ہے۔ البتہ مقتدرہ نے موجودہ دور میں میڈیا پر اپنا ہاتھ ڈھیلی رکھا ہے لیکن وہ خوف ابھی تک میڈیا مالکان اور لکھاریوں کے دل میں موجود ہے اس لئے وہ چاہ کر بھی بلوچستان کے مسائل پر لکھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ ہمیں تو حقائق بی بی سی سے معلوم ہوتے ہیں کہ بلوچستان میں کیا کچھ ہورہا ہے۔ بہرحال میڈیا کے اسی المیہ سے سقوط ڈھاکہ پیش آیا اسکے باوجود بھی انہوں نے ہوش کے ناخن نہیں لئے۔