|

وقتِ اشاعت :   August 23 – 2022

بلوچستان ملک کا انتہائی پسماندہ اور سب سے زیادہ خط غربت کا شکار صوبہ ہے یہاں کے باسی بے روزگاری پسماندگی عدم ترقی اور محرومیوں سے دوچار ہوتے چلے آ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اب پورا صوبہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے مکانات اور گھر منہدم ہو چکے ہیں اور موجودہ تباہ کن سیلاب میں ان کا گھریلو سامان اور جمع پونجی تک بہہ چکے ہیں ۔پی ڈی ایم اے بلوچستان کے مطابق اب تک دو سو سے زائد انسانی اموات رپورٹ ہو چکی ہیں ۔ بلوچستان کے لوگوں کے معاش کا انحصار مال مویشی تجارت اور زراعت پر ہے جو موجودہ تباہ کن سیلاب اور بارشوں کی بدولت مکمل تباہی سے دوچار یا یوں کہا جائے کہ مفلوج ہو چکے ہیں۔ سیلاب سے ہزاروں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں جہاں بچے اور بوڑھے مرد وخواتین بے سروسامانی اور بغیر چھت کے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔

نصیرآباد ڈویژن میں لگار تار پانچ دنوں سے مسلسل بارشیں ہوتی رہی ہیں اور دوران بارش کئی متاثرین کے خاندان بھوک اور پیاس سے جنگ لڑتے رہے ہیں ۔بارش میں خوراک کی عدم دستیابی سے متاثرین مشکلات سے دوچار تھے اور اسی وجہ سے بہت سے متاثرین مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔سیلاب کے متاثرین کو صاف پانی تک میسر نہیں وہ صاف پانی کی عدم موجودگی کی وجہ سے سیلاب کا گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں اسی وجہ سے بچے اور بوڑھے ہیضہ اور دست جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں ۔

اب تک حکومتی سطح پر معمولی مقدار میں اضلاع کو امداد فراہم کی گئی ہے حکومتی امداد انتہائی قلیل یا کم ہونے کے باعث متاثرین اس سے مکمل طور پر بہرہ مند نہ ہو سکے ہیں ۔نصیرآباد ضلع کی آبادی پانچ لاکھ سے زائد ہے لاکھوں کی آبادی کیلئے چار پانچ سو ٹینٹ یا خوارک کے کٹس کی فراہمی عوام کی امیدوں پر پانی پھرنے کے مترادف ہے نصیرآباد کے عوام بالخصوص سیلاب متاثرین کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ان کا نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے جس صوبے کے عوام قدرتی وسائل ریکوڈک سیندک جس سے ہزاروں ٹن سونا نکلتا ہو، جہاں سنگ مرمر ،کرومائیٹ سمیت دیگرقیمتی دھاتیں ہوں، دنیا میں بلوچستان کا نام روشن کرنے والا عظیم گیم چینجر منصوبہ سی پیک ہو اس کے باوجود وہاں کے عوام سیلابی پانی میں مرتے اور سڑتے رہے ہوں ،جہاں عوام کی جان و مال تک محفوظ نہ ہو، وہاں کا وزیر اعلیٰ نیرو کی طرح چین کی بانسری بجاتا ہو اورعوام بھوک پیاس سے لڑ رہے ہوں ،اس طرح کا عمل نہ تو انسانیت کے ذمرے میں آتا ہے اور نہ ہیخدمت کے ۔

اگر کوئی دنیا کا جدید اور مہذب ترقی یافتہ ملک ہوتا جہاں اس طرح کی صورتحال ہوتی جس کے صوبے کے سینکڑوں افراد مر چکے یا متاثر ہوئے ہوتے ، ہزاروں لوگوں کے گھر گر چکے ہوتے، ہزاروں مال مویشی اور لاکھوں ایکٹر پر محیط فصلیں تباہ ہو چکی ہوتیں، تو پھر اْس ملک کی میڈیا پر کیا صورتحال ہوتی اور کیا کیا ہیڈ لائیز چلاتے اورکس طرح کے تبصرے ہوتے؟ وہاں کے این جی اوز ، فلاحی ا و رفاحی اداروں کا کیا کردار ہوتا؟ وہاں کی سول سوسائٹی کا کیا ری ایکشن ہوتا؟ وہاں کی معزز عدالتوں کا کیا کردار ہوتا؟ وہاں کا میڈیا، سوشل میڈیا کے کیا ٹرینڈز چل رہے ہوتے؟ لیکن اس کے باوجود ریکوڈک سیندک سمیت تمام وسائل سے مالا مال صوبہ اور پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے بڑا اور غربت وپسماندگی میں اولین نمبر پر رہنے والے صوبے کے بدقسمت عوام اور ان کی تقدیر بدلنے والی قیادت کا موجودہ سیلابی صورتحال میں مدعا کیا ہونا چاہیے تھا؟ اور اس ملک کے سوشل میڈیا پر اب تک کیا نوحہ ہونا چاہیے تھا؟ کیا بلوچستان کو اس تباہ کن سیلاب اور مصیبت میں نیشنل میڈیا نے وہ کوریج دی جس کا صوبے کے محکوم عوام مستحق تھے؟ کیا ہمارے آزاد میڈیا نے آزادی اظہار کے نعرے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے بلوچستان کے محروم اور پسماندہ عوام کی صحیح ترجمانی کا حق ادا کر دیا یا پھر ہمارے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے بہرے ارباب اختیار کی طرح جو اب تک عوام کی بہتر ترجمانی کرنے سے قاصر ہیں ،کی طرح میڈیا بھی بلوچستان کے مصیبت زدہ عوام کے ساتھ بہترین سلوک کا ادا کرنے سے کیوں قاصرتھا؟ کہاں ہیں وہ قوم پرست جو عوام کے سامنے صوبے کے ساحل اور وسائل سپوت ومحافظ کے ناٹک اور شعبدہ بازی کرکے عوام سے ووٹ لیتے آ رہے ہیں

آج وہ کس جگہ یا کس جہاں میں ہیں ان سیاسی شعبدہ بازوں کی زبانوں پر کیوں کر تالے لگے ہوئے ہیں اسمبلیوں میں تقاریر اور بلند وبانگ کے ناٹک کرنے والے رہبر و رہنماء موجودہ سیلاب اور مصائب میں مصیبت زدہ قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے سے بھی قاصر ہیں۔ مرکز میں مراعات اور اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمین شپ کے مزے لینے والے بلوچستان کی بدحالی، سیلابی تباہی پر کیوں خاموش ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے صوبائی و مرکزی سیاسی پارٹیاں ہی ہماری بدحالی اور محرومیوں پر خود کی طرح دوسروں کو بھی حقائق سے چشم پوشی اختیار کرنے اور ان حقائق کو اجاگر کرنے میں رکاوٹ بن کر اہل ِبلوچستان کی محرومیوں میں مزید اضافہ کا موجب بن رہے ہیں ۔ان مشکلات اور تکالیف میں صوبائی و مرکزی قیادت کی خاموشی عوام کی آنکھیں کھولنے اور حق و سچ کی تمیز کرنے کیلئے کافی ہیں تاہم عوام خود ہی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے غلامی سے نکل کر اپنے حقوق اور صوبے کی ترقی کیلئے متحرک کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مظلوم و مصیبت زدہ عوام کیلئے موثر آواز بھی بلند کرنا ہوگا بصورت دیگر نہ ہوگی داستاں تمہاری داستانوں میں۔۔۔؟