|

وقتِ اشاعت :   August 24 – 2022

بلوچستان کے بعد سندھ میں بھی شدید بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کی رپورٹس سامنے آ رہی ہیں۔مٹیاری کی کرار جھیل کا پانی بھٹ شاہ شہر میں داخل ہو گیا، سڑکوں اور گلیوں میں کئی کئی فٹ پانی جمع ہونے سے مٹیاری میں 400 سے زائد کچے مکانات گر گئے جب کہ متاثرین قومی شاہراہ پر جھونپڑیاں بناکر بیٹھ گئے۔پڈعیدن کی نصرت کینال میں پانی کی سطح بلند ہونا شروع ہوگئی جبکہ خیرپور میں سیلابی ریلوں نے حفاظتی بندوں میں کٹاؤ ڈال دیا ہے اور شہر میں جگہ جگہ دو سے تین فٹ پانی جمع ہو گیا ہے۔

نواب شاہ کے قریب سیم نالے میں شگاف پڑنے سے درجنوں آبادیاں ڈوب گئی ہیں اور بدین میں رابطہ پل زیرِ آب آ گیا ہے۔ادھر دادو کی تحصیل جوہی، میہڑ اور خیرپور ناتھن شاہ میں طوفانی بارشوں کے باعث متعدد کچے مکانات گرگئے ہیں۔حیدرآباد، ٹھٹھہ، بدین، میرپورخاص اور دیگر شہروں میں بھی نظامِ زندگی شدید متاثر ہے جبکہ سانگھڑ میں کئی فٹ پانی میں چل کر لوگ مریضوں کو چارپائیوں پر ڈال کر اسپتال پہنچانے پر مجبور ہیں۔لاڑکانہ سیشن کورٹ بلڈنگ کے احاطے میں دوبارہ پانی بھرگیاجبکہ دادو میں تیز بارش سے 500 سے زائد دیہات زیر آب آ گئے۔

پنوعاقل میں سیم نالے میں رات گئے شگاف پڑ گیا جو 300 فٹ تک بڑھ گیا ہے، شگاف پڑنے سے ہزاروں ایکڑ اراضی زیر آب آگئی جبکہ پنو عاقل شہر کا سلطان پور سمیت دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع ہوگیا۔اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ شگاف سے 400 سے زائد گھر متاثر ہوئے ہیں۔کاچھو کے دیہی علاقوں کا تحصیل جوہی سے زمینی رابطہ منقطع ہوگیا، حیدرآباد کے کئی نشیبی علاقوں میں برساتی پانی جمع ہے، 3 دن بعد کنڈیارواوربھریا کے قریب قومی شاہراہ جزوی بحال کی گئی ہے۔موٹروے پولیس کے مطابق قومی شاہراہ پر سیلاب اور بارش کا پانی اب بھی موجود ہے۔دوسری جانب بلوچستان میں بارشوں اور سیلابی ریلوں کے نتیجے میں ہونے والے حادثات میں اموات کا سلسلہ نہ رک سکا۔بلوچستان میں بھی بارش اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے بڑے پیمانے پر نقصانات رپورٹ ہورہی ہیں۔

پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق اب تک بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی حادثات میں مزید 5 افراد جان کی بازی ہار گئے جس کے بعد یکم جون سے اب تک جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 230 تک پہنچ گئی ہے جس میں 110 مرد 55 خواتین اور 65 بچے شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق صوبے میں اموات بولان، کوئٹہ، ژوب، دکی، خضدار کوہلو، کیچ، مستونگ، ہرنائی، قلعہ سیف اللہ اور سبی میں ہوئیں، سب سے زیادہ 27 ہلاکتیں کوئٹہ، 21لسبیلہ اور 17پشین میں ہوئیں، بارشوں کے دوران صوبے میں مختلف حادثات میں 98 افراد زخمی ہوچکے جن میں 55 مرد 11 خواتین اور 32 بچے شامل ہیں۔

سیلابی ریلوں اور بارشوں سے مجموعی طور پر جہاں بلوچستان میں 26 ہزار 897 مکانات کونقصان پہنچا تو وہیں ایک لاکھ 7 ہزار 377 سے زائد مال مویشی سیلابی ریلوں کی نذر ہوگئے، اب تک مجموعی طور پر 2 ہزار ایکڑ زمین پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے جب کہ 710 کلو میٹر پر مشتمل مختلف شاہراہیں بھی شدید متاثر ہوئی ہیں۔بہرحال اس وقت بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب میں صورتحال بہت زیادہ خراب ہے جس کے باعث سندھ میں بلدیاتی انتخابات موجودہ حالات کے تناظر میں ملتوی کردیے گئے ہیں سندھ حکومت نے اپنے ترقیاتی اخراجات سیلاب زدگان کے لیے مختص کردی ہیں جوکہ ایک بہترین عمل ہے امید ہے کہ بلوچستان اور پنجاب حکومت بھی اپنے بیشتر فنڈز سیلاب متاثرین کے لیے مختص کرینگے۔

جب تک ان کی بحالی یقینی نہیں ہوجاتی دیگر معاملات کو ترجیح نہیں دیں گے، سب سے پہلے انسانی جانوں کو بچانا اور متاثرین کی زندگیوں کو بحال کرنا ضروری ہے تاکہ اس انسانی بحرانی کیفیت سے نکلاجاسکے کیونکہ حالیہ تباہی نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں ۔ایک گھمبیر صورتحال ہے حکومتوں کے ساتھ سب کو ملکر اس بحرانی کیفیت میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا تاکہ مشکل گھڑی سے مصیبت زدہ اپنوں کو نکال سکیں۔