حالیہ بارشوں اور سیلاب سے شدید متاثرہ ضلع کوہلو ،شہر سے لیکر دیہاتوں تک تباہی کے مناظر پیش کررہا ہے اور کسی بھی سنسنی کے بغیر حقیقتاً کوہلو ڈوب رہا ہے۔ بلوچستان کا ضلع کوہلو کے باسی ہماری میٹھی زبان بلوچی بولنے والے میرے پاکستانی اشک بہانے پر مجبور ہیں نصوبہ، بلاول ٹائون ،اوریانی،تمبیلی ،ماوند ،تمبو پڑہ،کاہان سمیت ہر طرف دردناک داستانیں ہیں آج کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار پاکستانیوں کا درد ان کے سوا کوئی اور محسوس نہیں کرسکتا ان بے یارو مدد گار انسانوں کا سہارا آسمان پر ہے اور زمین پر ہم خدا کا وسیلہ ہیں خدارا، ایسے نازک وقت میں اپنے تمام تر سیاسی اختلافات اور دیگر اختلافات بھلا دیں سیلاب سے متاثرہ پاکستانی ہماری راہ تک رہے ہیں ان کے آنسو پونچھیں اپنی حیثیت کے مطابق ان کی مدد کیجئے ایک مرتبہ پھر درد سہنے والے پاکستانی اپنی قوم کے منتظر ہیں۔ کوہلو میں طوفانی بارشوں سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال تباہی کی المناک داستانیں چھوڑ گیا ہے ۔
بے یارو مدد گار لوگوں نے جان بچانے کیلئے ہنستے بستے گھر چھوڑ دئیے لوگ لاچارہوگئے ،گھر گرگئے، سامان برباد ہوگیا جو بچا وہ سمیٹ کر جان بچائی۔ سیلاب متاثرین کی مشکلات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں ٹوٹے پھوٹے گھروں سے بچا کچا سامان لیکر قافلوں کی شکل لوگوں کی منتقلی جاری ہے محفوظ مقامات نہ ملا تو کھلا آسمان اور کچی سڑکیں متاثرین کا ٹھکانہ بن گئیں متاثرین کو کچھ نہیں ملا تو شاپر باندھ کر خیمے بنالیئے، چٹائیوں کے چھت تلے متاثرین تیز بارشوں سے سہم گئے 14اگست کی صبح بلاول ٹاؤن میں سیلابی ریلا داخل ہوااور سب کچھ بہا کرلے گیا۔ نصوبہ کے مختلف علاقوں میں پانی گھروں میں داخل ہونے سے درجنوں گھر پانی میں ڈوب گئے، تنگہ ندی میں سیلابی صورتحال سے اوریانی کے مقام پر درجنوں کچے مکانات ملبے کے ڈھیر بن گئے ،سیلاب نے کوہلو کی کئی بستیوں کو شدید متاثر کیا۔
سیڑ ندی میں آنے والے اونچے درجے کا سیلابی ریلا گھروں میں داخل ہونے سے درجنوں کچے مکانات تباہ ہوگئے ۔ سیلاب سے ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں، کئی تاریخی شہر، گائوں،بستیاں اجڑ گئے مسلسل جاری بارشوں نے ہزاروں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا، کئی بستیوں کے نام و نشان تک مٹ گئے ،لوگوں کی عمر بھر کی جمع پونجی سیلابی ریلوں کے نظر ہوگئی، سڑکیں دھنس گئیں ۔نصوبہ کچ کو ڈسڑکٹ ہیڈکوارٹر سے ملانے والی سڑک شدید متاثر ہوا لوگوں کا ضلعی ہیڈکوارٹر سے زمینی رابطہ مکمل طور پر کٹ گیا دور دراز علاقوں کی سڑکیں سیلابی ریلوں میں بہہ گئیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ گھروں میں محصور ہوگئے ہیں مریضوں کی ڈسڑکٹ ہیڈکوارٹر تک رسائی ناممکن ہوگئی مختلف علاقوں کے سیلاب متاثرین کھلے آسمان تلے دن رات بسر کررہے ہیں ،حکومتی اقدامات، امدادی سرگرمیاں بروقت شروع نہ ہونے سے سیلاب کے متاثرین حکومتی امداد نہ ملنے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ متاثرین کا مطالبہ تھا کہ سر چھپانے کے لئے ٹینٹس فراہم کئے جائیں تاکہ معصوم بچوں کو محفوظ کرسکیں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات پر منتقل ہونے لگے ۔
سیلاب متاثرین پینے کے صاف پانی کے لئے ترس گئے ہیں حالیہ مون سون بارشوں سے کوہلو میں 13قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔خواتین بچوں سمیت 30 کے قریب افراد زخمی ہوئے ہیں طوفانی بارشوں سے 1ہزار سے زائد کچے مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں جبکہ 3ہزار کے قریب کچے مکانات کو جزوی نقصان پہنچا، 3500 مال مویشی سیلابی ریلوں میں بہہ کر ہلاک ہوئے ہیں کروڑوں روپے کی کھڑی فصلیں پانی داخل ہونے سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں ۔صوبائی اور وفاقی حکومت کی جانب سے تاحال سیلاب متاثرین کیلئے کوئی خاص اقدامات دیکھنے کو نہیں مل رہے ہیں ،بے گھر افراد ملبوں کے نیچے اپنا سامان ڈھونڈنے میں مصروف ہیں اور متاثرین سیلاب کیمپس اور خیموں میں اپنے زندگی گزارہے ہیں کئی علاقوں کے سیلاب متاثرین بے یارو مدگار کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ضلعی انتظامیہ کی رپورٹ کے مطابق لیویز کیو آر ایف اور ایف سی کی مددگار ٹیموں نے 264 افراد کو بروقت ریسکیو کرلیا ۔
سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کے لئے دو مختلف مقامات پر ریلیف کیمپ قائم کردیئے گئے ہیں محکمہ صحت کی جانب سے مختلف علاقوں میں 7 فری میڈیکل کیمپ قائم کردئیے گئے ہیں متاثرہ خاندانوں میں پی ڈی ایم اے کی جانب سے 450 خاندانوں میں خیمے اور 300 راشن بیگز تقسیم کئے گئے ضلعی انتظامیہ کے فنڈز سے متاثرہ خاندانوں میں 300 راشن فراہم کئے گئے ہیں یہ امدادی سرگرمیاں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں متاثرین خیموں اور راشن کے لئے ترس رہے ہیں گھر بہہ گئے فصلیں متاثر ہوئیں تو لوگ خالی ہاتھ ہوگئے ہیں مسلسل بارش جاری ہے کمانے کی ہمت نہیں متاثرین کا کوئی پرسان حال نہیں ایم این اے وفاقی وزیر نارکوٹکس کی جانب سے علاقے کا دورہ تک نہیں کیا گیا ہے لگتا یوں ہے کہ وہ بھول گیا ہے کہ میرے ووٹر کوہلو میں بھی موجود ہیں وہ اس وقت مشکلات سے دوچار ہیںاوربے بسی کی تصویر بنے ہوئے حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔