|

وقتِ اشاعت :   September 1 – 2022

آئین اور قانون ملکی ترقی ، خوشحالی، امن وسلامتی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جس کا اطلاق ہر کسی پر لازم ہوتا ہے قانون سے بالاتر کوئی نہیں ہوتا سب ہی آئین اور قانون کے ماتحت رہ کر ریاست کے اندر رہتے ہیں اگر کسی کے لیے قانون نرم اور لچک دار رکھا جائے اور کسی پر سخت گرفت کے ساتھ لاگو کیاجائے تو یقینا اس سے قانون اور آئین کی بالادستی پر سوالات اٹھتے ہیں ایسی سوچ کو زائل کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے کیونکہ ایک کے لیے الگ قانون اور دوسرے کے لیے الگ قانون ایک بے چینی کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ ہمارے ہاں توہین عدالت کے حوالے سے سزا وجزا کے معاملے پر ان دنوں بہت زیادہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں خاص کر عمران خان کے متعلق بہت زیادہ تحفظات کا اظہار اپوزیشن سمیت دیگر بھی کررہے ہیں کہ عمران خان کو بعض مقامات پر ریلیف اور لاڈلے کی طرح دیکھا جارہا ہے اور عدلیہ کے متعلق سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

کہ ماضی میں ن لیگ کے رہنماؤں کو فوری سزا دی گئی ،معافی مانگنے کے باوجود بھی انہیں توہین عدالت کیس میں نااہل قرار دیا گیا مگر گزشتہ روز عمران خان کی توہین عدالت کیس سماعت پر کچھ اور ہی دیکھنے کو ملا ۔ خاتون جج کو دھمکی دینے سے متعلق توہین عدالت کے کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو 7 روز میں دوبارہ جواب جمع کرانے کی مہلت مل گئی۔خاتون جج کو دھمکی دینے سے متعلق توہین عدالت کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عدالت کے حکم پر ذاتی حیثیت میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔

اس موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے اور وکلاء کے سوا کسی بھی شخص کو کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔عمران خان کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دئیے کہ آپ عمران خان کے وکیل کے ساتھ اس کورٹ کے معاون بھی ہیں، آپ نے جو تحریری جواب جمع کرایا اس کی توقع نہیں تھی، یہ کورٹ توقع کرتی تھی آپ ادھر آنے سے پہلے عدلیہ کا اعتماد بڑھائیں گے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کو قانون اور آئین کی حکمرانی پر یقین رکھنا چاہیے، تحریری جواب سے مجھے ذاتی طور پر دکھ ہوا، ماتحت عدلیہ جن حالات میں رہ رہی ہے، اس کورٹ کی کاوشوں سے جوڈیشل کمپلیکس بن رہا ہے، عمران خان نے ہماری بات سنی اور جوڈیشل کمپلیکس تعمیر ہو رہا ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ عمران خان کی کافی فین فالوونگ ہے، عمران خان کے پائے کے لیڈر کو ہر لفظ سو چ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے، میں توقع کر رہا تھا کہ احساس ہوگا کہ غلطی ہوگئی، جس طرح گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا اسی طرح زبان سے نکلی بات واپس نہیں جاتی۔ان ریمارکس کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ کوئی بھی سیاستدان کتنا بھی مقبول ہو کیا وہ قانون اور آئین سے بالاتر ہوتا ہے کیا اس کے لیے خاص رعایت رکھی جاسکتی ہے وہ جو بھی باتیں کرے، جو منہ میں آئے کہے۔

اور پھر اسے یہ احساس دلایاجائے کہ یہ توہین کے ذمرے میں آتا ہے اس سے اداروں کی ساکھ پر اثر پڑتا ہے جس سے قانون کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں۔ایسا بالکل بھی نہیں ہوتا جب کوئی شخص جرم کرتا ہے تو فوری قانون کا اطلاق اس پر لازم ہوتا ہے یقینا اس سے جواب طلبی کی جاتی ہے قانون کے مطابق کارروائی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے مگر یہ اطلاق صرف مخصوص شخصیت پر لاگو نہیں ہوتا بلکہ سب پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔خدا کرے ہمارے یہاں اداروں پر سب کا اعتماد بحال رہے اور قانون وآئین کی بالادستی کا بول بالا ہو۔