|

وقتِ اشاعت :   September 13 – 2022

بلوچستان میںسیلاب متاثرین کی امدادی کاموں کے حوالے سے بہت زیادہ شکایات موصول ہورہی ہیںکہ بعض اضلاع میں متاثرین کو امدادی سامان فراہم نہیں کیاجارہا ہے۔ یہ مسلسل میڈیا پربھی رپورٹ ہورہا ہے بلوچستان میں حالیہ بارشوں وسیلابی ریلوں سے بہت زیادہ جانی ومالی نقصانات ہوئے ہیں ۔صورتحال بہتر نہیں ہے وزیراعظم متاثرہ علاقوں کے دورے بھی کرچکا ہے اور یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ متاثرین کی بحالی تک چھین سے نہیں بیٹھیں گے حکومت تمام تر وسائل بروئے کار لائے گی جبکہ وفاقی سطح پر مانیٹرنگ سسٹم بھی تشکیل دیدی گئی ہے، احسن اقبال تمام تر صورتحال کودیکھ رہے ہیں۔بہرحال حکومت سیلاب متاثرین کے شکوے شکایات کو دور کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے تاکہ ان کو کم ازکم وقتی طور پر کچھ ریلیف مل سکے ،بحالی میں تو کافی وقت درکار ہے مگر اب جو سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں انہیں دی جاسکتی ہیں وہ دی جائیں۔ دوسری جانب پرونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کاکہناہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران صوبے کے بیشتر علاقوں میں موسم گرم اور مرطوب رہا۔پی ڈی ایم اے آرمی اورایف سی کے تعاون سے آواران، سبی، نصیر آباد، جھل مگسی، کچھی، نوشکی، موسیٰ خیل، ڈیرہ بگٹی، صحبت پور اور لسبیلہ میں ریلیف اور ریسکیو آپریشن کر رہی ہے۔

گیارہ ایمبیڈڈ ریلیف کیمپ نصیر آباد، جعفرآباد، جھل مگسی، کوئٹہ، ڈیرہ بگٹی، کوہلو اور صحبت پور میں کام کر رہے ہیں۔ آواران میں، گھرچوری کے خاندانوں میں 55 راشن پیکج تقسیم کیے گئے۔سول ہسپتال سبی میں داخل مریضوں کو روزانہ کی بنیاد پر دن میں دو بار پکا ہوا کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔ نصیر آباد میں، راشن پیکج 300 افراد اور 604 خاندانوں میں تقسیم کیے گئے اور دیگر امدادی اشیاء بشمول خیمے، کمبل، لحاف، پانی کی بوتلیں، پکا ہوا کھانا، خشک راشن اور گھریلو سامان، کچھی میں 38 خاندانوں میں پکا ہوا کھانا/خشک راشن اور بوتل کا پانی تقسیم کیا گیا۔جھل مگسی میں 55 راشن پیکجز تقسیم کیے گئے اور علاقے میں پانی صاف کرنے کا آپریشن بھی کیا گیا۔ نوشکی میں 11 راشن پیکج تقسیم کیے گئے۔ بیلہ اور گردونواح میں 100 راشن پیکج، 200 آٹے کے تھیلے، 20 واٹر کولر اور 20 کارٹن پانی کی بوتلیں تقسیم کی گئیں۔ ایف سی نے ڈیرہ بگٹی میں 528 راشن پیکجز اور 110 پکا ہوا کھانا، موسیٰ خیل میں 60 راشن پیکجز، 390 راشن پیکجز، 40 آٹے کے تھیلے، 140 کپڑے، 27 کیک رسک پیک، 100 مسپل، 50 جوس اور دودھ کے 4 کارٹنوں میں 4 خاندانوں میں تقسیم کیا۔ سول رضاکاروں نے گوٹھ کنڈی نیمی، لسبیلہ میں 100 راشن بیگ، 500 کپڑوں کی اشیاء اور جوتے تقسیم کئے۔

پی ڈی ایم اے نے کوئٹہ اور قلعہ سیف اللہ میں 175 خیمے، 150 فوڈ پیکجز، 150 مچھر دانی، 150 پلاسٹک کی چٹائیاں، 250 بالٹیاں 250 جیری کین اور 250 کمبل تقسیم کرکے اپنی امدادی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں پی ڈی ایم اے اور آرمی/FC کی جانب سے لوٹی، زین، کلی دامن، آدم پور، پروم، مند، میرانی، بالنیگور، ڈی ایم جے، حبیب کوٹ گنڈکا، جھل مگسی، اوستہ محمد میں کل 83 فری میڈیکل کیمپ لگائے گئے۔ اور سبی جہاں 27,370 مریضوں کا علاج کیا گیا۔سڑکوں کے رابطے میں بہتری آئی ہے۔ N-10، N-40، N-70 اور N-85 کھلے ہیں۔ N-25 لنڈا پل ڈائیورژن کے ذریعے تمام ٹریفک کے لیے کھلا ہے۔ سڑک N-50 40T تک ٹریفک کے لیے کھلی ہے جس کا سنگل کیریج وے پل ساگو میں شروع کیا گیا ہے۔ N-65 ہلکی گاڑیوں کے لیے صرف مچھ اور سبی کے درمیان کھلا ہے۔ پنجرہ پل کے ڈائیورژن پر ٹریفک جام ہے تاہم ایف سی (این) نے ٹریفک مینجمنٹ کے لیے سول انتظامیہ کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ M-8 وانگو ہلز پر بلاک ہے۔ 40 کلومیٹر میں سے 33 کلومیٹر کا حصہ صاف ہو گیا ہے اور بقیہ 7 کلومیٹر کا کام جاری ہے۔ مٹی کی پٹڑی کے کٹاؤ کے باعث ٹریک چاغی نوشکی پر ریلوے آپریشن معطل ہے۔ ہیروک پل کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے کوئٹہ سبی ٹریک پر ریلوے آپریشن معطل ہے۔

بختیار آباد کے قریب سیلابی ریلے کے باعث سبی ریلوے آپریشن معطل۔ پیر غائب کے مقام پر دو 220 KV ٹرانسمیشن لائن دادو-سبی-کوئٹہ کی مرمت کا کام جاری ہے۔ گوکرد کے قریب کوئٹہ الائنمنٹ پر بجلی کے 10 پائلنز کو نقصان پہنچا جن میں سے 4 کو کھڑا کر دیا گیا ہے اور 3 پر کام جاری ہے۔ 88 موبائل کمیونیکیشن ٹاور بجلی کے مسائل کی وجہ سے ناقابل استعمال ہیں۔ پی ڈی ایم اے، این ڈی ایم اے، آرمی/ ایف سی اور این جی اوز صوبے میں سیلاب متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کر رہی ہیں۔اس وقت ریاست کے تمام ادارے متاثرین کی بحالی پر لگے ہوئے ہیں تو وہیں پر اقوام متحدہ ,عالمی برادری، عالمی تنظیمیں،فلاحی اداروں ، سیاسی ومذہبی جماعتوں کی جانب سے بھی ریلیف کے حوالے سے کام کیاجارہا ہے مگر اس تمام عمل کو ذمہ داری کے ساتھ متاثرین تک پہنچانا ضروری ہے تاکہ ان کی حق تلفی نہ ہو۔ انتظامیہ کی خاص ذمہ داری بنتی ہے کیونکہ ان کی ٹیمیں مقامی سطح پر ہر جگہ موجود رہتی ہیں وہ اس حوالے سے غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ نہ کریں اور پسندوناپسند سمیت امدادی سامان کو کرپشن کی نذر نہ ہونے دیں۔ یہ وقت دکھی افراد کی مدد کرنے کا ہے جن کا سب کچھ ختم ہوکر رہ گیا ہے اب وہ اس امیدپر بیٹھے ہیں کہ ان کی بحالی کے لیے ہر شخص اپناحصہ ڈالے گا اور یہ سب کی ذمہ داری بھی ہے کہ اس مشکل وقت میں متاثرین کی مدد کے لیے جتنا ہوسکے مدد کرے ،اس شکر کے ساتھ کہ اس آفت سے ہم محفوظ ہیں اور یہی دعا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دوبارہ اس طرح کا گھمبیر مسئلہ پیدا نہ ہو جو انسانی بحران کا باعث بن سکے۔