|

وقتِ اشاعت :   September 17 – 2022

کوئٹہ ،کراچی، لاہور اسلام آباد سمیت ملک بھر میںآٹا مہنگا ہونے کے ساتھ روٹی کی قیمت بھی دگنی ہوگئی ہے۔ملک میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے مشکلات بڑھنے لگیں،اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت بڑھ تو چکی ہے اس کے ساتھ مل مالکان نے بھی آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔ملک میں آٹے کی قیمت 130روپے کلو تک پہنچ گئی۔ کراچی میں آٹا ملک میں سب سے مہنگا ہے۔ ایک کلو کی قیمت125سے130 روپے ہے۔لاہور میں110 روپے سے 116 روپے میں ایک کلو آٹا مل رہا ہے۔ اسلام آباد میں چکی کا آٹا125 روپے میں فروخت ہونے لگا۔کوئٹہ میں آٹے کی قیمت120روپے کلو ہوگئی۔ گوجرانوالہ میں چکی کا آٹا 130 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔

چکی مالکان کا کہنا ہے کہ غلہ منڈیوں میں قلت کے سبب فی من گندم 2 ہزار850 سے بڑھ کر3 ہزار800 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ بجلی کے بھاری بل بھی ادا کر رہے ہیں۔ آٹا مہنگا کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔اوپن مارکیٹ میں بیس کلو آٹے کی قیمت میں بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ لاہور میں حکومت کی جانب سے فراہم کردہ بیس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت نو سو اسی روپے ہے جو مارکیٹ میں کئی جگہوں پر دستیاب ہی نہیں۔ملک بھر میں اس وقت عوام آٹے کے لیے سرگرداں بھی دکھائی دے رہے ہیں جہاں آٹا مل رہا ہے تو اس کی قیمت پہنچ سے دور ہے ایک مصنوعی بحران پیداکیا گیا ہے جس کا برائے راست اثر عوام پر پڑرہا ہے اس مہنگائی کے دور میں عوام کو ہر طرح سے لوٹنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب ملک میں بحرانی کیفیت ہے جہاں ریلیف دینے کی ذاتی کاوشوں کی صورت میں دینے کی ضرورت ہے مگر افسوس یہاں بھی منافع خوری کی جاتی ہے آٹا روز مرہ کے طور پر لوگ استعمال کرتے ہیں جو زندگی کی سب سے اہم ضرورت کی اشیاء ہے جب یہ بھی لوگوں کو مہنگے داموں میں ملے تو غریب کیا کھائے گا افسوس کا مقام ہے کہ ان حالات میں اس طرح کی بے حسی معاشرے کے زوال کا سبب بنتا ہے۔

عام طور پر یہ بات شہری جانتے ہیں کہ جب بھی کوئی چیز ناپید ہوجاتی ہے یا اس کی قلت پیدا ہوتی ہے تو ہمارے یہاں اسے ذخیرہ کرکے منافع خوری کی جاتی ہے اور عوام کو اس قدر مجبور کیاجاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا پہیہ چلانے کے لیے بہ مجبوری اسے خریدے۔بہرحال یہ ذمہ داری حکومت کی ہے کہ اس طرح کے گھناؤنے عمل کو روکنے کے لیے سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ایسے عناصر کے خلاف بلاتفریق کارروائی عمل میںلائے اور ساتھ ہی پرائس کنٹرول کمیٹی سمیت ضلعی انتظامیہ کو خواب خرگوش سے جگاکر انہیں ذمہ داری کا احساس دلایاجائے کہ ان کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ وہ لوگوں کوریلیف فراہم کرنے کے حوالے سے اپنے اختیارات کے تحت کام کریں۔

المیہ تو یہ ہے کہ اس وقت تمام صوبوں میں انتظامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹی مکمل طور پر غیرفعال ہیں ماسوائے چند آفیسران کے جو اپنے ذمہ داری احسن طریقے سے نبھارہے ہیں مگر یہ مسائل تب ہی حل ہونگے جب مکمل سرکاری مشینری متحرک ہوکر اپنا کام کرے گی۔ وفاقی حکومت کو بھی چاہئے کہ آٹے کی قیمتوں میں جواضافہ ہورہا ہے اسے روکنے کے حوالے سے ایک میکنزم بنائے اور جو مصنوعی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس حوالے سے بھی اپنا کردار ادا کرے اگر حکومت ہی ان مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لے گی تو عوام گرانفروشوں اور منافع خوروں کے رحم وکرم پر ہونگے جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑے گا جو پہلے سے ہی بری طرح مہنگائی کی چکی میں پِس رہے ہیں خدارا غریب شہریوں کو ظالمانہ رویوں کے رحم وکرم پر نہ چھوڑا جائے ۔