ملک میں سیاسی ومعاشی استحکام کے حوالے سے حکومت واپوزیشن دونوں باتیں کررہی ہیں مگر اس میںپیشرفت ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے بلکہ حالات مزید گھمبیر ہی دکھائی دے رہے ہیں اگریہ کہاجائے کہ اس وقت ڈویژن بنتے جارہے ہیں تقسیم درتقسیم کا ایک نہ رکنے والا شروع ہوگیا ہے جو ملک کو بہت بڑے مسائل میں دھکیل رہا ہے جو آگے چلکر بڑے بحران کا باعث بن سکتا ہے واضح رہے کہ اس وقت سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اداروں کو بھی متنازعہ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں سیاسی نابلدی اور اپنی اَنا پرستی اقتدار کی ہوس پر پورے ملک کو داؤ پر لگایاجارہا ہے اس میں پی ٹی آئی خاص کر بہت زیادہ سرگرم دکھائی دے رہی ہے جس کی ایک مثال تو شہباز گل ہیں مگر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان عسکری،عدلیہ، انتظامیہ کسی بھی کوانہوں نے نہیں بخشا سب کو نشانے پر لیے ہوئے ہیں۔
روز ایک نیا بیان داغ دیتے ہیں اور پھر یوٹرن لیتے ہوئے اس کی وضاحت کبھی خود تو کبھی ان کے نمائندگان کرتے ہیں کہ اس بیان کی تشریح جس طرح کی جارہی ہے درحقیقت اس کا مطلب یہ نہیں تھا بہرحال اپوزیشن کی نیت سے واضح ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتی اور بضد ہے کہ جلد عام انتخابات کرائے جائیں افسوس کا عالم تو یہ ہے کہ ایک ایسے حالات میں وہ اسی مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ ملک کو سیلاب نے تہس نہس کردیا ہے جانی نقصانات کے ساتھ لوگوں کے سب کچھ ختم ہوگئے کھاتے پیتے لوگ سڑکوںپر آگئے ہیں غریب نان شبینہ کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں جن کی بحالی پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے اپنی سیاست میں ہی مگن ہیں بجائے کہ متاثرین کی بحالی کے حوالے سے زیادہ اپنی توانائی صرف کرے مگر نہیں ان کامطالبہ ہی موجودہ ملکی حالات اور تناظرمیں کچھ اور ہی ہے غداری کے سرٹیفکیٹ اول روز سے ہی بانٹے جارہے ہیں اور خود تمام تر قانونی وآئینی حدودیںپھلانگ کر حملہ آور ہورہے ہیں۔
بہرحال یہ سیاسی رویہ بہت بڑے سانحات بھی پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ دوسری جانب حکومت بات چیت کے لیے پیشکش کررہی ہے۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان نے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ میرا اقتدار واپس کرو اور اس سے بڑھ کر اور کیا خود غرضی ہوسکتی ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے کہا جائے رقم نہ دو۔انہوں نے کہا کہ ہم تمام جماعتوں سے بات کرنے کو تیار ہیں کیونکہ متنازعہ باتوں سے ادارے اور ملک کا احترام مجروح ہوتا ہے۔ نومبر میں وزیر اعظم شہباز شریف اہم ادارے کے سربراہ کی تقرری کریں گے اس لیے آئینی فریضے کو موضوع بحث بنانے سے گریز کیا جائے۔خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان ہر معاملے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور عمران خان کہتے ہیں نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے۔البتہ حکومت کی جانب سے پیشکش ایک مثبت عمل ہے کہ بات چیت ضروری ہے ملک میں سیاسی استحکام لانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ حالات کو اندرون خانہ بہتر کیاجائے بجائے کہ انتشار اور انارکی پھیلایاجائے کیونکہ پہلے سے ہی ملک میں مسائل بہت زیادہ ہیں اور اس کی بڑی وجہ بھی سیاسی عدم استحکام ہے جس نے معیشت کو بہت زیادہ متاثر کرکے رکھا ہے۔
جس کا تذکرہ خود پی ٹی آئی بھی کرتی ہے مگر بیٹھنے کو کسی صورت تیار نہیں ان کی نظر میں اس وقت حکومت میں سب چور ہیں مگر خود اپنے ارد گرد عمران خان نہیں دیکھتے کہ انہوں نے پہلے کس طرح کے القابات سے اپنے ہی لائے گئے اہم سرکاری عہدوں پر بٹھائے گئے شخصیات کو پکارتے تھے مگر لوگوںکا حافظہ اتنا کمزور نہیں کہ وہ یہ باتیں بھول جائیں بہت ساری مثالیں موجود ہیں البتہ اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو مستقبل اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے لہٰذا اقتدار سے زیادہ ریاست اور اس کے استحکام پر ترجیح دینی چاہئے۔