|

وقتِ اشاعت :   September 21 – 2022

پچھلے دو ہفتوں سے گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی ایک بار پھر اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔خبر یہ ہے کہ گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی(جیڈا) کا آفس ایک بار پھر گوادر سے کراچی جیسے بڑے کاروباری شہر میں کھولا گیا ہے۔ سوشل میڈیا میں جیڈا کراچی آفس کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آفس کی کس طرح شاہانہ طریقے سے تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ جیڈا آفس کے گوادر سے کراچی منتقل ہونے کی خبر پر ایم ڈی جیڈا نے ایک وضاحتی بیان بھی جاری کی ہے کہ کراچی میں گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا صرف ایک فیسلیٹیشن سینٹر کھولا گیا ہے جس میں صرف ایک معمولی کلرک بیٹھ کر کراچی اور پنجاب کے سرمایہ داروں کے اقساط کو جمع کریگا،حالانکہ ویڈیو میں کانفرنس روم سمیت کمپیوٹر سیکشن بھی دکھائی دے رہی ہے جنہیں انتہائی نفیس طریقے سے سجایا گیا ہے۔
گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (جیڈا) 2005 سے لیکر 2008 تک ایک پروجیکٹ کے طور پر کام کرتا رہا ہے لیکن 2009 میں اسے باقاعدہ طور پر ایک اتھارٹی بنا کر پورے مکران تک اس کو توسیع دی گئی۔جیڈا سی پیک منصوبوں کا ایک اہم اور انتہائی بڑا حصہ ہے جس کا مقصد گوادر سمیت بلوچستان بھر میں صنعتوں کی ضروریات کو پورا کرنا اور صنعتی شعبے کے لیے گودام،سمال سائز انڈسٹریز، سیمنٹ انڈسٹریز،مینوفیکچرنگ انڈسٹریز،ٹیکسٹائل انڈسٹریز،فوڈ انڈسٹریزسمیت پیٹروکیمکل انڈسٹریز کی قیام کے لیے پہلے مقامی صنعت کاراور بعد میں ملک بھر کے صنعت کاروں کو مواقع فراہم کرنا ہے۔
اور خصوصاً گوادر میں مقامی لوگوں کو ہرقسم کے کاروباری سرگرمیوں اور صنعتوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مدد فراہم کرنا بھی جیڈا کے قیام کا اہم مقصد ہے۔ریونیو ڈیپارٹمنٹ بلوچستان نے بلوچستان حکومت کی گزارشات پر گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو گوادر کے کارواٹ نامی علاقے میں تین ہزار ایکڑ اراضی صنعتی زون لگانے کے لیے الاٹ کردی ہے تاکہ وہاں بڑے اور چھوٹے پیمانے پر صنعتی زون سمیت کمرشل پلاٹ مقامی سرمایہ کار اور صنعت کاروں کو الاٹ کرکے گوادر شہر کو مکمل طور پر ایک صنعتی زون بنایا جائے گوکہ جیڈا کے فیز ون کی اراضیات پر حاجی حق نواز نامی شخص کی جانب سے بلوچستان ہائی کورٹ میں مقدمہ بھی چل رہاہے۔
آج 14 سال گزرگئے ہیں نہ تو کارواٹ کی سونا اْگلتی زمینیں آباد ہوسکیں اور نہ ہی ابھی تک جیڈا نے وہاں کسی صنعتی زون کا سنگ بنیاد رکھاہے۔گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی چونکہ ایک منافع بخش ادارہ ہے دوسرے منافع بخش اداروں کی طرح یہاں بھی اشرافیہ ایک دوسرے سے دست و گریبان رہی ہے۔ ایم ڈی اور جی ایم جیسے بڑے عہدوں پر بْراجمان ہونے کے لیے 20 اور 18 گریڈ کی پوسٹ کے لیے افسران آپس میں ایک دوسرے سے لڑتے رہے عدالتوں سے اسٹے لیتے رہے اِن تمام چیزوں کو دیکھ کر نیب بلوچستان نے دسمبر 2017 میں جیڈا پر چھاپہ مارکر تمام الاٹمنٹ اور ٹرانسفر پر پابندی عائد کردی کیونکہ نیب کو بھی شاید اِس بات کی بھِنک پڑی ہو کہ یہاں کچھ تو ہے کہ جس پر اتنا شوروغوغا کیا جارہا ہے۔بالاافسران کی ایک دوسرے پر چیرہ دستی کی وجہ سے عام ملازمین اس دوران تقریباً اپنے چھ ماہ کی تنخواہوں سے محروم رہے۔
2015 سے جیڈا میں کسی بھی طرح کی اوپن پوسٹنگ نہیں ہوئی ہے حالانکہ یہاں بہت سی اسامیاں ابھی بھی خالی ہیں کچھ مقامی لوگوں کو عارضی طور پر ملازمت پر رکھا گیا ہے۔ادارے کے سروس رولز کو کس قانون کے تحت کون بناتا ہے یہ بھی ابھی تک مخفی ہے اور پروموشن کے طریقہ کار پر بھی مقامی ملازمین سوختہ ہیں اتنے سال گزر گئے جیڈا ابھی تک مکمل طور پر ایک اتھارٹی بن کر صحیح معنوں میں اپنا کام سرانجام دینے سے قاصر ہے۔
گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جو آفیشل ویب سائیٹ ہے وہ 2017 سے اپ ڈیٹ نہیں ہوئی ہے جبکہ سوشل میڈیا کامعتبر ذریعہ فیس بک پر جیڈا کی جو آفیشل پیج ہے اْس کے فالورز کی تعداد فقط 812 ہے اور وہ بھی دو سال سے بند ہے اِس سے جیڈا کی فعالیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (جیڈا) کے فیس بک پیج پر بھی الاٹیز شکوہ شکایتیں کرتے نظر آتے ہیں اور وہ جیڈا کو ایک دھوکہ باز ادارہ لکھتے ہیں۔ فیس بک پیج پر لاہور کے میاں جاوید لکھتے ہیں کہ میں نے 2017 میں 2 پلاٹ خریدے تمام واجبات اور دیگر پیسے بھی ادا کیے ہیں،ای میل کیے،میسج کیے،کالیں کیں لیکن ادارے کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا،دفتر کا پورا عملہ سنجیدہ نہیں ہے میں وہاں گودام بنانا چاہتا ہوں لیکن مجھے ابھی تک این او سی نہیں دیاگیا۔
ایک اور سرمایہ کار دراز لطیف لکھتے ہیں آپ لوگ انڈسٹریل اسٹیٹ کا ایک یونٹ بھی نہیں چلاسکتے مجھ جیسے سرمایہ کار اپنی محنت کی کمائی گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ میں خرچ کرتے ہیں لیکن پلاٹ ابھی تک ہمارے نام منتقل نہیں ہوئے یہ سب دھوکہ ہے۔
جیڈا سرمایہ داروں کو تسلی بخش جواب دینے کے بجائے اْنہیں نیب کے نام سے ڈرا کر خاموش کرانے کی کوشش کرتی رہی حالانکہ بقول سرمایہ کار انہوں نے سرمایہ کاری نیب اور عدالت میں نہیں کی ہے انہوں نے سرمایہ کاری جیڈا سے کی ہے صنعتی زون کو بحال کرانا جیڈا کی ذمہ داری ہے۔
جس وقت جام کمال خان وزیراعلیٰ بلوچستان تھے انہوں نے اسمبلی فلور پر جب جیڈا کے حوالے سے بات کی تو کراچی کے علاقے کلفٹن بلاک نمبر2 ضیاء الدین ہسپتال کے قریب جیڈا کا جو آفس تھا اْسے بند کرکے سارے ملازمین کو راتوں رات گوادر بھیج دیا گیا، جام کمال خان ایک ویژنری وزیراعلیٰ تھے وہ اِن چیزوں کو انتہائی باریکی سے دیکھتے تھے لیکن ابھی جیڈا نے دوبارہ کراچی پریس کلب کے نزدیک فیسلیٹیشن آفس کے نام پر ایک دفتر کھول رکھا ہے اور جواز یہ پیش کیا جارہا ہے کہ کراچی اور اندرون پنجاب کے سرمایہ داروں کی سہولیات کے لیے یہ دفتر کھولا گیا ہے۔عام لوگوں کا خیال یہ ہے کہ جیڈا کا کراچی میں آفس کھولنے کی وجہ سے جو سرمایہ دار پہلے جوق در جوق گوادر آرہے تھے جنکی وجہ سے گوادر شہر کی رونقیں بحال تھیں،ٹرانسپورٹر برسرروزگار تھے، رہائشی ہوٹل اور دوکاندار برسرروزگار تھے اب وہاں سناٹا چھایا ہوا ہے سی پیک کے ذریعے مقامی لوگوں کو بڑے پیمانے پر روزگار ملنے کے دعوؤں پر گویا جیڈا پانی پھیر رہا ہے۔
سی پیک کا آغاز 2013 میں کیا گیا اور یہی کہا گیا کہ پورٹ اور سی پیک کی وجہ سے گوادر اگلے تیس سالوں میں پندرہ لاکھ نوکریاں پیدا کرسکے گا اور یہاں پر سالانہ تیس ہزار ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق گوادر فری زون میں ابھی تک 66 پاکستانی اور تیس کے قریب چائنیز کمپنیاں 66 ارب ڈالر کی لاگت سے ملٹی نیشنل فیکٹریاں بنارہی ہیں جہاں مختلف پروڈکٹ بناکر اْنہیں بیرون ممالک ایکسپورٹ کیا جاسکے گا اور اِن پروڈکٹ کی مالیت تقریبا دس ارب ڈالر ہوگی۔
دوسری جانب جیڈا بھی یہی دعویٰ کررہی ہے کہ صوبائی حکومت کے تعاون سے انہوں نے بھی ابھی تک ڈیڑھ ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔
جام کمال خان نے ترقیاتی منصوبوں میں تیزی لانے کے لیے جیڈا کو کافی اون کیا تھا اور اس بات کا اعتراف جیڈا کے منیجنگ ڈائریکٹر خود بھی کرچکے ہیں، جام کمال خان نے ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد تیز کرنے کے لیے 00’588 ملین کی لاگت سے کارواٹ انڈسٹریل زون میں 270 ایکڑ پر انفراسٹرکچر کے بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے احکامات دئیے،100 ملین کی لاگت سے جیڈا کے ہیڈ کوارٹر بلڈنگ کی تعمیر جبکہ 714’9 ملین کی لاگت سے گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ اتھارٹی کے پراجیکٹ سائٹ پر سیکورٹی گارڈ روم،ریسٹ ہاؤس کی تعمیر کے احکامات جاری کیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ جام کمال خان نے 80 ملین روپے کی لاگت سے تربت اور پنجگور میں انڈسٹریل زون کے قیام کے لیے کنسلٹسی کے ورک آرڈر بھی جاری کیے تھے اور پنجگور میں کچھ کاموں کے لیے جیڈا نے ٹینڈر بھی طلب کیے تھے اس کے علاوہ تربت میں ایک ہزار ایکڑ اراضی اور پسنی میں تقریباً پانچ سو ایکڑ اراضی پر جیڈا کے بورڈ نصب ہیں۔
یکم اگست 2022 میں جیڈا کی 23 ویں بورڈ آف ڈائریکٹر کا اجلاس کوئٹہ کے سرینا ہوٹل میں ہوئی اس سے قبل بورڈ آف ڈائریکٹر کا 19ویں اجلاس کراچی کے ایک مہنگے ترین ہوٹل میں منعقد کیا گیا اور بورڈ آف ڈائریکٹر کے ان تمام اجلاسوں میں کوئی بھی مقامی افسر کو شامل نہیں کیا گویا بورڈ آف ڈائریکٹر کے اجلاس مقامی افسران کے لیے شجرممنوعہ ہیں۔
یہ امر یقینا گوادر شہر کی بدقسمتی ہے کہ اْس کے فیصلے کبھی اسلام آباد تو کبھی کراچی کے ہوٹلوں میں بیٹھ کر کیے جاتے ہیں اور اْن فیصلوں میں گوادر کے لوگوں کے لیے کیا کیا ثمرات شامل ہوتے ہیں اِن باتوں سے گوادر کے کسی بھی شہری کو آدھا فیصد جانکاری بھی نہیں۔
گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی(جیڈا) کے بارے سوشل میڈیا میں بحث کے وقت ایک مہربان نے کہا کہ جیڈا نے چار سو سے زائد الاٹمنٹ کے فائل جن کے اقساط بھی جمع تھے لیکن اْنہیں کینسل کردیا گیا کیونکہ اِن کے پلاٹ نمبر پہلے سے بیچے گئے تھے جس کی وجہ سے جیڈا کو پریشانی کا سامنا تھا ایک لحاظ سے یہ ایک مس منیجمنٹ ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ اْنہیں اس لیے کینسل کیا گیا کہ الاٹیز کو بعد میں یہ کہہ کر مطمئن کرینگے کہ دیکھو آپ لوگوں کے کینسل شدہ پلاٹ بحال کیے گئے لہذا اب پلاٹ نمبر اور لوکیشن کے بارے میں پوچھ گچھ مت کریں یوں محسوس ہوتا ہے گویا جیڈا نے اب دوکانداری شروع کردی ہے۔ اب یہ موجود وزیراعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو کی ذمہ داری ہے کہ وہ جیڈا کے معاملات میں سنجیدگی دکھائے،گوادر میں صنعتی زون کو بحال کرانے کے لیے جیڈا کو ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کے احکامات دے وگرنہ کارواٹ کی دھول اْڑتی زمین آئندہ تیس سال تک اسی طرح دھول اْڑاتی رہے گی۔