سندھ اور بلوچستان کے سیلاب متاثرین کی مشکلات میں کمی آنے کے بجائے روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، متاثرین وبائی امراض میں جکڑتے جا رہے ہیں اور اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی کا بھی سامنا ہے۔بلوچستان کے ضلع نصیرآباد کے سیلاب متاثرین گیسٹرو اور ملیریا سمیت مختلف وبائی امراض کا شکار ہو رہے ہیں، ضلعی ہیڈکوارٹر اسپتال میں روزانہ 2000 سے زائد مریض آرہے ہیں مگر کسی کو ڈاکٹر دستیاب نہیں تو کوئی دوائی کے لیے پریشان ہے جبکہ اسپتال میں ملیریا کی ویکسین بھی دستیاب نہیں ہے۔دوسری جانب سندھ میں سیلاب اور بارش کے پانی کی عدم نکاسی سے بیماریوں میں شدت آ گئی ہے، دادو میں گیسٹرو، ملیریا، دیگر بیماریوں سے مزید 3 افرادانتقال کرگئے جس سے ضلع میں جاں بحق افراد کی تعداد 23 ہو گئی ہے۔دادو کے سرکاری اور نجی اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد 8000 کے قریب ریکارڈ کی گئی ہے، دادو کے بچاؤ بند، سپریو بند اور مین نارا ویلی ڈرین پر لاکھوں لوگ کھلے آسمان تلے امداد کے منتظر ہیں۔ادھر کاچھو کے سینکڑوں دیہات کا جوہی سے 42 روز بعد بھی زمینی رابطہ منقطع ہے جبکہ خیرپور ناتھن شاہ، فرید آباد اور بھان سعید آباد میں21 روز بعد بھی بجلی بحال نہیں ہو سکی ہے۔بھان سعید آباد رنگ بند ایریا،گرڈ اسٹیشن سے پانی کی نکاسی کے لیے ہیوی مشینری پہنچ گئی جبکہ پانی کے اخراج کے لیے انڈس لنک کینال کو دوسرا کٹ بھی لگا دیا گیا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں سیلابی پانی کی نکاسی نہ ہونے کی وجہ سے مختلف بیماریاں پھیلنے لگی ہیں۔ڈیرہ اسماعیل خان کے کئی علاقوں میں سیلابی پانی اب بھی موجود ہے جو جلدی امراض کے ساتھ ساتھ کئی دیگر امراض کا باعث بن رہا ہے۔تحصیل پروا کے علاقے ڈھورا سوہلن میں سیلابی پانی میں چلنے پھرنے اور ہاتھ دھونے سے دانے نکلنا اور انفیکشن ہو جانا معمول بن گیا ہے۔علاقے میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم کے انچارج عامر سہیل سدوزئی کے مطابق سیلاب متاثرین کو خوراک سے زیادہ اب علاج معالجے اور دواؤں کی ضرورت ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان میں سرکاری سطح پر کسی سیلابی علاقے میں پانی کی نکاسی کا کوئی کام نہیں کیا جا رہا جو تمام تر بیماریوں کا موجب بن رہی ہے۔بلوچستان میں سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے حادثات میں مزید تین افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کے بعد صوبے میں یکم جون سے اب تک جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 304 ہوگئی۔ سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے حادثات میں مرد اور خاتون سمیت ایک بچے کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے، جاں بحق ہونے والے تینوں افراد کا تعلق ضلع جعفر آباد سے ہے۔
پی ڈی ایم اے کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں یکم جون سے اب تک جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 304 ہوگئی، جاں بحق ہونے والوں میں 138 مرد، 74 خواتین اور 92 بچے شامل ہیں، سب سے زیادہ 40 ہلاکتیں کوئٹہ، ژوب سے 23 اور لسبیلہ سے 21 اموات رپورٹ ہوئیں۔ صوبے بھر میں بارشوں کے دوران مختلف حادثات میں 184 افراد زخمی ہوئے۔سیلابی ریلوں اور بارشوں سے مجموعی طور پر بلوچستان میں 72 ہزار 235 مکانات نقصان کا شکار ہوئے جبکہ 3 لاکھ، 5 ہزار 155 سے زائد مال مویشی سیلابی ریلوں کی نذر ہوچکے ہیں۔پی ڈی ایم اے کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 2 لاکھ ایکڑ زمین پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا جبکہ صوبے میں سیلابی ریلوں میں 24 پل گر گئے۔پی ڈی ایم اے کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان بھر میں سیلاب اور بارشوں سے 2200 کلومیٹر پر مشتمل مختلف شاہراہیں بھی شدید متاثر ہوئیں۔بلوچستان ، سندھ میں سیلاب متاثرین کی صورتحال بہت زیادہ خراب ہوتی جارہی ہے جس کی جانب بارہا اشارہ کیاجارہا ہے کہ متاثرہ افراد کو وبائی امراض سے بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدا مات اٹھانے کی ضرورت ہے جس کرب میں وہ زندگی گزار رہے ہیں انہیں لفظوںمیں بیان نہیں کیاجاسکتا ، جن پر اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی ہے فاقوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، پینے کا صاف تک میسر نہیں، سب کچھ ختم ہوکر رہ گیا ہے ان کی آنکھیں سہارا ڈھونڈ رہی ہیں اور ریاست سے بڑھ کر کوئی سہارا دینا والا نہیں ہے کیونکہ ریاست ماں ہے اور اس کی پوری ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تمام تر وسائل متاثرین کی بحالی میں لگائے، یقینا مشکلات بھی ہیں مگر جو امداد اور وسائل اس وقت حکومتوں کو مل رہے ہیں انہی کو صاف شفاف انداز میں متاثرین تک پہنچائیں سب سے پہلے تو وبائی امراض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھائیں تاکہ مزید انسانی جانیں ضائع نہ ہوں ۔ امید ہے کہ حکومت اس اہم اور سنجیدہ مسئلہ کو حل کرنے کے لیے پوری کوشش کرے گی تاکہ متاثرین کی مشکلات میں کمی آسکے۔