|

وقتِ اشاعت :   September 25 – 2022

اسلام آباد ایک بار پھر دنگل بننے جارہا ہے سابق وزیراعظم وچیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ پہلے ان کی تیاری نہیں تھی مگر اب وہ مکمل تیاری کے ساتھ اسلام آباد آئینگے۔ دھمکی آمیز لہجے میں عمران خان نے وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی جبکہ وزیراعظم کے خلاف سخت رویہ اپنایا ہے۔

بہرحال ایک بار پھر اسلام آباد میں حالات کشیدہ ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں کیونکہ جب پی ٹی آئی اپنے مظاہرین کے ساتھ اسلام آباد آئے گی اور تشدد کا راستہ اپنائے گی تو یقینا دوسری جانب سے جواب بھی ملے گا۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ متعدد بار تنبیہ کرچکے ہیں کہ ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے نہیں دیاجائے گا۔ گزشتہ روز پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کاکہنا تھاکہ اسلام آباد پر چڑھائی کریں گے تو کیا ہم لیٹ جائیں؟ اگر مسلح ہو کر ریڈ زون کی جانب بڑھیں گے تو ایسے گروہ کو روکا جائے گا۔ عمران خان کے بیانیے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بڑی مقبولیت ہے اور بڑا بیانیہ کامیاب ہے لیکن عمران خان کی کوئی مقبولیت ہے نہ بیانیہ کامیاب ہے۔۔ 25 مئی کو تیاری نہیں تھی تو 20 لاکھ آدمی کیسے لانا تھے اور جلسے بھی کیے۔

ڈیڑھ ماہ جلسے کیے اب یہ تیاری نہیں تھی تو کیا تھی، وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان ملک کو دھکیلنے اور ناکام کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور ملک کو کیا بنانا اسٹیٹ کے طور پر دنیا کو دکھائیں۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے خود کہا تھا کہ 25 مئی کو جب آئے تو مسلح تھے تو اب اگر لوگ مسلح ہوں گے تو لازمی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو استعمال کریں گے لیکن اگر غیر مسلح ہوں گے تو احتجاج ریکارڈ کرائیں، ہم سیکیورٹی اور سہولتیں بھی دیں گے۔ اگر مسلح ہو کر ریڈ زون کی جانب بڑھیں گے تو ایسے گروہ کو روکا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی یونٹ فیڈریشن کو چیلنج کرے تو اس کے لیے آئینی طریقے ہوں گے، اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا ہمیں مانگی گئی نفری نہیں دیتے تو ہمارے پاس آپشن موجود ہے۔ ہمارے پاس رینجرز، ایف سی، اسلام آباد پولیس اور سندھ سے 10 ہزار کا ڈبل نمبر موجود ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم نے پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومت کو ریکارڈ کے لیے خط لکھا اور نفری مانگی جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت سے نفری کی ضرورت نہیں تھی۔اس وقت ملک میں پہلے سے مسائل بہت زیادہ ہیں ایک طرف سیلاب کی صورتحال ہے تو دوسری جانب معیشت کا برا حال ہے اگر ان حالات میں سیاسی عدم استحکام اور خون خرابے کی صورتحال پیدا ہوگئی تو یقینا اس کے انتہائی منفی اثرات پڑینگے مگر عمران خان بضد ہیں کہ وہ اسلام آباد آئینگے اور ان کا مطالبہ یہی ہے کہ عام انتخابات فوری طور پرکرائیں جائیں مگر کے پی کے اور پنجاب میں ان کی حکومت ہے وہاں اسمبلیاں تحلیل نہ کرنا سوالیہ نشان ہے جبکہ ملک کا نصف حصہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے کس طرح سے عام انتخابات ہوسکتے ہیں لوگ مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں وہ اپنی زندگی کی بحالی چاہتے ہیں ایک تو ان کا سب کچھ سیلاب اپنے ساتھ بہا لے گیا ہے۔

امیر غریب سب ہی سڑکوں پر آگئے ہیں ان کے پاس کچھ نہیں رہ گیا ہے وہ امداد اور ریلیف کے منتظر ہیں ،وبائی امراض نے بھی خطرات بڑھادیئے ہیں ایسی صورتحال میں کیا عام انتخابات کا مطالبہ دانشمندی ہے اس میںصرف ایک ضد اور انا دکھائی دیتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے اس حکومت کو کام کرنے نہ دیا جائے جبکہ ملک کو بھی انتشار جیسی صورتحال کی طرف دھکیلا جائے مگر اس کا جواب یقینا ریاست کی طرف سے آئے گا ۔