وزیراعظم ہاؤس سمیت اہم مقامات سے خفیہ ریکارڈنگ کے معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا۔
اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بدھ کو وزیراعظم ہاؤس میں طلب کرلیا ہے، اجلاس میں آئی ایس آئی اور آئی بی کے سربراہان بھی شرکت کریں گے۔ آئی بی اور آئی ایس آئی کے سربراہان خفیہ ریکارڈنگز کے متعلق قومی سلامتی کمیٹی کو بریف کریں گے۔ اجلاس میں وزیر دفاع، وزیر داخلہ، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ بھی شرکت کریں گے۔واضح رہے کہ دو روز قبل وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں آڈیو سامنے آئی تھی جس کے بعد پی ایم ہاؤس کی سیکیورٹی کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اس حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ معاملے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے اور تحقیقات کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ پی ایم ہاؤس کی سیکیورٹی بریچ ہوئی یا نہیں، فی الحال اسے سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔پاکستان شاید واحد ملک ہے جہاں حکمران اس طرح کی حساس نوعیت کے معاملات کو غیر سنجیدگی سے لیتے ہوئے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ میں نے اپنے گفتگو کے دوران کوئی غلط بات نہیں کی اور نہ ہی کسی طرح کے کرپشن یا اقرباء پروری سمیت دیگر غیر قانونی حوالے سے احکامات دیئے ہیں جو قانون اور آئین سے تجاوز کرتا ہے یا کوئی سازش کررہا ہوں جس سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہوجائیں ۔بھلا اس سے بڑا قومی سلامتی کے لیے خطرے کی بات کیا ہوگی کہ وزیراعظم ہاؤس، وزراء کے آفسز غیر محفوظ ہیں وہاں خفیہ ریکارڈنگ ہورہی ہے اگر کوئی اہم نوعیت کا اجلاس ہو اور اہم فیصلے کئے جانے ہیں تو وہ آڈیولیک ہونا کتنا بڑا خطرہ ملک کے لیے ثابت ہوسکتا ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان جب وزیراعظم تھے تو وہ کھلے عام یہ بات کرتے تھے کہ میرے فون کی ریکارڈنگ کی جائے مجھے کوئی پرواہ نہیں میں چور نہیں ہوں مجھے کوئی ڈر و خوف نہیں بے شک فونز ریکارڈ کئے جائیں ۔ اگر بحیثیت عمران خان اور پی ٹی آئی کے چیئرمین ذاتی طور پر یہ بات اپنے متعلق کہتے تو اعتراض کا نقطہ نہیں اٹھتا مگر بطور وزیراعظم پاکستان بائیس کروڑ عوام کی نمائندگی کرنے والا شخص یہ بات کہتا ہے تو اس پر افسوس اور ماتم ہی کیا جاسکتا ہے کہ اس قدر کرسی پیاری ہوتی ہے کہ اپنے آفس کے معاملات میں ہونے والے لیکس پر کوئی پرواہ نہیں صرف وزارت برقرار رہے ۔ بہرحال ن لیگ کے وزراء کی جانب سے بھی یہی بیانات آرہے ہیں کہ وزیراعظم نے توایسی کوئی بات نہیں کی جس پر اس کی ساکھ متاثر ہو یا وہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کررہے ہیں ۔کیا ن لیگ اپنا بیانیہ بھول گئی ہے کہ ووٹ کو عزت دو عوام کو عزت دو کیونکہ وزیراعظم ہاؤس میاں شہباز شریف کی ملکیت نہیں بلکہ یہ عوام کی امانت ہے اور ان کے ووٹ کے ذریعے ہی نمائندگان وزیراعظم کا چناؤ عمل میں لاتے ہیں ن لیگ کے آفس کی آڈیو ریکارڈنگ لیک ہوتی تو کوئی بیان داغ کر جان چھڑائی جاسکتی تھی مگر وزیراعظم ہاؤس کی آڈیو کالیک ہونا ایک حساس اور گھمبیر مسئلہ ہے ۔
اس کا دنیا میں کیا تاثر جائے گا جب دیگرممالک کے سربراہان ،نمائندگان، اداروں کے سربراہان ملاقات کے لیے وزیراعظم ہاؤس آکر اہم نوعیت کے معاملات پر بات کرتے ہیں تو وہ یہ سمجھیں گے کہ یہاں کوئی بھی بات حساس نوعیت کی لیک ہوسکتی ہے یہ انتہائی غلط تاثر جارہا ہے جسے اتنی آسانی سے رفع دفع نہیں کیاجاسکتا بلکہ وزیراعظم آفس کے سیکیورٹی انچار چ سے پوچھ گچھ ہونی چاہئے کہ آفس کی سیکیورٹی اس قدر کمزور ہے کہ یہاں کوئی خاص بندوبست موجود ہی نہیں ۔بہرحال اس حوالے سے سیکیورٹی اداروں کے سربراہان کو بھی ایکشن لینا ہوگا اور معاملے کی طے تک جانا چاہئے تاکہ ملکی امیج دنیا میں متاثر نہ ہو اور یہ خبر بہت بڑی اور خوفناک ہے جسے سیاست کے لیے اپوزیشن استعمال کرتی ہے تو یہ شرمناک عمل ہوگا کیونکہ کل انہیں بھی اسی آفس میں بیٹھ کر حکومتی امور چلانے ہونگے۔ لہٰذا اپنی سیاسی اختلافات کو سیاست تک رہنے دیں ملک کے حساس معاملات سے مذاق اورسیاست نہ کریں جس سے ملک کو نقصان ۔