|

وقتِ اشاعت :   September 28 – 2022

ملک میں گزشتہ چند برس کے دوران سیاسی کلچر میں غیر اخلاقی عنصر تیزی کے ساتھ حاوی ہوتا جارہا ہے اس قدر طوفان بدتمیزی مچائی جارہی ہے کہ تمام روایات کو پامال کرتے ہوئے خواتین کی عزت ووقار کو بھی نہیں دیکھاجارہا ہے یہ ٹرینڈ پی ٹی آئی کی جانب سے شروع کیا گیا ہے سوشل میڈیا سے لیکر ہر مقام پر سیاسی مخالفین کو گھیر کران کے ساتھ غیر مہذبانہ رویہ اختیار کیاجاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس قدر نازیبا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں جو ناقابل بیان ہیں جو بھی پی ٹی آئی مخالف ہوتاہے اس کے خلاف غلیظ ترین زبان استعمال کی جاتی ہے گھر تک کو نہیں چھوڑا جاتا ہے جبکہ قائدین کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے، اگرکہاجائے کہ لیڈر شپ خود اس تمام ڈائریکشن میں ملوث ہے تو بیجا نہ ہوگا کیونکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی عوامی اجتماعات میں سیاسی مخالفین کے خلاف اخلاق سے عاری باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہتے ہیں کہ ان کا پیچھا نہیں چھوڑینگے اور اپنے کارکنان کو بھی باقاعدہ ہدایات دیتے ہیں کہ مخالفین کہیں بھی ملیں انہیں چھوڑنا نہیں ہے۔ بہرحال جس طرح کاسیاسی کلچر پروان چڑھایاجارہا ہے اس کے انتہائی بھیانک نتائج نکلیں گے۔

مدینہ منورہ کا واقعہ سامنے ہے ،ایک منصوبے تحت کے لوگوں کو اکٹھا کیا گیا اور حکومتی وفد پر مقدس مقام کے احاطے میں نعرے بازی کی گئی جس کی ہر سطح پر مذمت کی گئی اور جو بھی اس میں ملوث پائے گئے ان کو سزاہوئی اور جرمانے عائد کئے گئے ،ان کی زندگیاں اب تو برباد ہوگئیں کیونکہ پی ٹی آئی کا وطیرہ ہے کہ صرف اپناکام نکالنا دوبارہ پلٹ کر نہ دیکھنا ، یہ ان لوگوں کو سوچنا چاہئے جو لاشعوری طور پر اس طرح کے عمل کا حصہ بنتے ہیں۔ گزشتہ دنوں لندن میں وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا گھیراؤ کیا گیا ا،نتہائی غلیظ زبان استعمال کی گئی ، نعرے بازی کی گئی مگر سلام ہے کہ وفاقی وزیر مریم اورنگزیب پر کہ انہوں نے مکمل صبروتحمل سے کام لیا اور کسی طرح کا ردعمل نہیں دیا بلکہ مسکراتے رہے اور جواب دیتے رہے اور یہی ان کے منہ پر بہت بڑا طمانچہ ہے کہ ایک خاتون نے کس طرح سے اپنے اوپر ہونے والے لفظوں کی نشتر کو برداشت کیا اور وہ رویہ اختیار نہیں کیا جو مخالفین نے اپنایا،جو بہترین تربیت کی نشاندہی کرتا ہے اور مخالفین کی تربیت کھل کر واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی تربیت کس طرح کے ماحول میں ہوئی ہے اور ان کی ذہنی کیفیت کیا ہے۔

اگر چاہتیںتو مریم اورنگزیب ان کے خلاف رپورٹ کرتیںتو ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی ہوتی کیونکہ ہراساں کرنے کے حوالے سے کیس بنتا ہے مگر مریم اورنگزیب نے ایسا نہیں کیا۔ مریم اورنگزیب نے اس تمام تر عمل پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر میں چاہتی تو ان کے خلاف رپورٹ کرتی لیکن ان کی مجبوری سے واقف ہوں کہ بیرون ملک اپنے گھر کو چلانے کے لیے رہتے ہیںاگر رپورٹ کرتی تو ان کوسزا بھی ملتی مگر میں نے ایسا نہیں کیا ۔ البتہ جس تیزی کے ساتھ اس ماحول کو پی ٹی آئی پروان چڑھارہی ہے اس سے ان کا بچنا بھی ممکن نہیں ہوگا کیونکہ پھر دوسری جانب سے مخالفین کے کارکنان بھی اپنا ردعمل دینگے اگر ایک بار یہ سوچ لیاجائے کہ پی ٹی آئی کے کسی لیڈر شپ کے گھر سے تعلق رکھنے والے خاتون کے ساتھ یہی رویہ اپنایاجائے تو کیاردعمل ہوگا۔ یقینا یہ ایک قابل مذمت عمل ہے اس کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی کوئی اس کی حمایت کرے گا مگر یہ سوچنا خود عمران خان کا کام ہے ۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی بیڈگورننس اور حکومتی کارکردگی پر خود بہت سے سوالات موجود ہیں ،وہ ان سے مبرا نہیں ہوسکتے جب بھی پی ٹی آئی حکومت کا ذکر آئے گا تو بیڈگورننس سرفہرست ہوگی مگر جو سیاسی حوالے سے مخالفین کے ساتھ برتاؤ عمل میں لایاجارہا ہے تاریخ میں اسے کبھی بھولانہیں جائے گا جو پلٹ کر عمران خان اورپی ٹی آئی قائدین پر آکر گرے گا ۔اس لیے ضروری ہے کہ غیراخلاقی رویے پر نظرثانی کی جائے تاکہ معاشرہ مزید زوال کی طرف نہ جائے۔