پاکستان میں جمہوریت کے متعلق ہر وقت سوالات اٹھائے جاتے ہیںکہ ہمارے یہاں جمہوری نظام انتہائی کمزور رہا ہے جس کی وجہ سے معیشت اور سیاسی استحکام کا مسئلہ سراٹھاتا رہا ہے ۔ایک تو غیرجمہوری ادوار بہت زیادہ گزرے جس میں فوج کے سربراہان نے منتخب حکومتوں کو گھر چلتا کرتے ہوئے مارشل لاء لگایا اور یہ ادوار طویل رہے دس دس سال تک غیر جمہوری حکومتیں رہیں مگر المیہ یہ بھی ہے کہ اسی غیر جمہوری دور میں بھی چند سیاسی جماعتیں کابینہ اور حکومت کا حصہ بنی رہیں ۔اگر سیاسی جماعتیں اس عمل کا حصہ نہ بنتیں تو یقینامارشل لاء کا دروازہ بہت پہلے بند ہوچکا ہوتا مگر اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کے لیے سیاستدانوں نے اس عمل کواپنے لیے سود مند سمجھتے ہوئے فائدے اٹھائے اور اپنے حریف جماعتوں کو دیوار سے لگانے کے لیے تمام تر زور لگایا ،نتیجہ یہ نکلا کہ یہی سیاسی جماعتیں خود بھی اس سیاہ تاریخ سے بچ نہ سکیں اورانہیں اسی مکافات عمل کا سامنا کرناپڑا۔ بہرحال اس طویل تجربہ کے بعد ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے مشرف دور میں ایک اتحاد تشکیل دیا اور یہ طے کرلیا کہ اب کسی غیرجمہوری عمل کا حصہ کوئی جماعت نہیں بنے گا ،میثاق جمہوریت بنائی گئی بدقسمتی سے ایک بارپھریہ اتحاد پارہ پارہ ہو گیا۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سیاسی جما عتوں کی آپسی کشیدگی نے ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا بلکہ اداروں کو کمزور کرکے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا جس طرح آج کل عمران خان نیوٹرل کے حوالے سے بات چیت کرتے ہیں مگر 2014ء سے لیکر 2018ء کے عام انتخابات اور حکومت کے پونے چار سال کے دوران انہوں نے انہی اداروں کے سہارے اپنی حکومت چلائی اورخود اس بات کا اعتراف عمران خان کرتے ہیں کہ اگر کوئی بل پاس کرنا ہوتا تھا تو ادارے سے رجوع کرنا پڑتا تھا، بجٹ پاس کرانے کے لیے بھی ادارے کی مدد لی جاتی تھی عدم اعتماد کے حوالے سے بھی ادارے کے ذریعے ارکان کو اسمبلی لاکر اپنی حمایت میں ووٹ ڈلوانا پڑتا تھا۔ اب موصوف فرمارہے ہیں کہ نیوٹرل نہیں رہنا چاہئے وہی سہولیات عمران خان اپنے لیے چاہتے ہیں اور اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار بھی عسکری ادارے کوٹھہراتے ہیں اور یہ الزام ہر جگہ ہر فورم پر دہراتے دکھائی دیتے ہیں جس کی وجہ سے ملک سمیت دنیا بھر میں یہ ایک بڑی بحث بن چکی ہے ۔ عمران خان کی خواہش صرف اقتدار ہے اسے جمہوریت اور اداروں کی آزادی سے کوئی غرض نہیں تبدیلی کا جو نعرہ لیکر وہ حکومت میں آئے تھے پونے چار سال کے دوران اس کی تبدیلی سب کے سامنے ہے کہ ماسوائے مخالفین کی درگت بناتے ہوئے انہیں ہر طرح سے دیوار کے ساتھ لگانے کے لیے تمام تر توانائیاں صرف کی گئیں مگر ملکی معیشت ، اداروں کی بہتری کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔
اب وہ بار بار عسکری اداروں کو درمیان میں لانے کی بات کرتے ہیں اگر ان کی نہیں سنی جاتی تو وہ تنقید کرتے ہیںموجودہ آرمی چیف اور آنے والی تعیناتی پر بھی تنقید کرتے دکھائی دے رہے ہیں، گزشتہ روز واشنگٹن میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا غیررسمی بات چیت کے دوران کہنا تھاکہ مسلح افواج خودکو سیاست سے دور کرچکیں اور دور ہی رہنا چاہتی ہیں۔واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے میں ظہرانے سے خطاب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہونے کے عزم کا اظہار کیا۔
آرمی چیف کاکہنا تھاکہ ملک کی بیمار معیشت کو بحال کرنا معاشرے کے ہر حصے دار کی ترجیح ہونی چاہیے، مضبوط معیشت کے بغیر قوم اپنے ٹارگٹ حاصل نہیں کرسکے گی اور مضبوط معیشت کے بغیر سفارتکار ی نہیں ہوسکتی۔یہ مختصر سا جملہ اب عمران خان کو بھی سمجھ لینا چاہے کہ ادارے نیوٹرل ہیں اب خدارا سیاست میں اس باب کو بند کردیاجائے اپنی انا اور ضد ،خواہش کو پورا کرنے کے لیے ملکی اداروں کی ساکھ اور سالمیت کو داؤ پر نہ لگایا جائے جس سے مزید بحرانات اور نقصانات پیدا ہوجائیں۔