ملکی معیشت میں فی الحال کوئی خاص بہتری نہیں آئی ہے پہلے سے ہی قرضوں کے بوجھ تلے قومی خزانہ چل رہا ہے اور تمام تر معاشی معاملات کو چلانے کے لیے سخت فیصلے بھی کئے جارہے ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںاضافہ، ٹیکسز کی بھر مار ،مہنگائی کے ذریعے قومی خزانے پر پڑنے والے بوجھ کوکم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔بہرحال حکومتیں ہر وقت یہی باتیں کرتی رہتی ہیں کہ ماضی میں زیادہ قرض لینے کی وجہ سے مالی بوجھ پڑا ہے اس وجہ سے سخت فیصلے کرنے پر مجبور ہیں ۔اس وقت بھی آئی ایم ایف کے شرائط کے مطابق ہی فیصلے کئے جارہے ہیں ملک میں حالیہ سیلاب کے بعد جو بحرانی کیفیت پیداہوئی ہے اس نے مزید مالی حوالے سے صورتحال کو خراب کردیا ہے اب حکومت اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ اس حوالے سے بیرونی ممالک، عالمی ادارے ، مالیاتی ادارے پاکستان کی مدد کریں اور کسی حد تک اس حوالے سے بہترین پیشرفت بھی ہوئی ہے۔
اب موجودہ صورتحال کے پیش نظر وزیر خزانہ اسحاق ڈار امریکا روانہ ہوگئے ہیں۔وزارت خزانہ کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار دورہ امریکا میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے حکام سے مذاکرات کریں گے۔اسحاق ڈار آئی ایم ایف کے نمائندوں سے قرض پروگرام پر مذاکرات کریں گے جب کہ عالمی بینک کے عہدیداران سے بھی فنڈز سمیت دیگر امور پر مذاکرات ہوں گے۔پاکستان رواں مالی سال 2022-23 کے لیے میکرو اکنامک فریم ورک پر نظرثانی کے لیے باضابطہ درخواست کرے گا، بڑھتی مہنگائی، جی ڈی پی کی شرح نمو میں کمی، بجٹ خسارے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے اہداف میں نرمی کی درخواست کی جائے گی۔اعلیٰ پاکستانی عہدیدار کے مطابق آئی ایم ایف سے توسیعی فنڈ سہولت (EFF) سے منسلک شرائط نرم کرنے کی درخواست بھی کی جائے گی جس میں اگلے چند ماہ کے لیے پیٹرولیم لیوی اور بجلی کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ منجمد کرنا بھی شامل ہے۔
میکرو اکنامک فریم ورک پر نظر ثانی کی درخواست رواں مالی سال شدید سیلاب کے پیش نظر کی جائے گی جس نے تباہی مچا دی ہے اور پاکستان کی مشکلات سے دوچار معیشت کے لیے 30 ارب ڈالرز سے زائد کی تعمیراتی لاگت درکار ہے۔اگر آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں اور نرمی کی جاتی ہے تو اس سے قومی خزانے پر بوجھ میںکمی ہوگی اور عین ممکن ہے معاشی بحران اور مالی مسائل جواس وقت چیلنج کے طور پر سامنے آرہے ہیں ان سے احسن طور پر نمٹا جاسکے۔ امید ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب ہونگے اور آئی ایم ایف شرائط میں نرمی لائے گی تاکہ ملک موجودہ مالی بحرانی کیفیت سے نکل سکے۔