|

وقتِ اشاعت :   October 15 – 2022

ملک میں بہت سارے سیاستدان آتے رہے ہیں اور اہم عہدوں پر فائزہوتے رہے ہیں کسی نے مدت پوری کی تو کسی کووقت سے پہلے فارغ کردیا گیا۔کچھ ادوار غیرجمہوری بھی گزرے جس سے ملک کونا قابل تلافی نقصان پہنچا ۔ سقوط ڈھاکہ سے لے کر بلوچستان کے حالات تک ہمارے سامنے ہیں کہ مشرف دور میں بلوچستان کے حالات بہت زیادہ خراب ہوئے، غلط پالیسیاں اپناتے ہوئے ڈویژن پیدا کی گئی ۔

بہرحال یہ تجربات کبھی بھی کامیاب نہیں رہے ،دنیا میں اگر کوئی فار مولہ سیاسی حوالے سے کامیاب رہا ہے تووہ جمہوریت ہے جس کے ذریعے عوام کے منتخب نمائندگان ووٹ لیکر ایوانوں تک پہنچتے ہیں اور آزاد ہوکر پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔مگر یہاں بھی بدقسمتی سے سیاستدانوں نے اپنے مفادات کو ترجیح دی اور اس طرح سے پارلیمان وہ کام نہیں کرسکی جوکرناچاہئے تھا۔

یہاں اگر چیئرمین عمران خان کی بات کی جائے تو ان کی سیاست تضادات سے بھری پڑی ہے جب اپوزیشن میں تھے تو موصوف فرماتے تھے کہ وہ ایسے وزیراعظم بننا پسند کرینگے جس کے پاس تمام اختیارات ہوں، کسی کے ڈکٹیٹشن پر نہیں چلیں گے ،پارلیمان کو سپریم بنائینگے ،اداروںسے آئین کے اندر رہتے ہوئے کام لینے کے فارمولے پر چلیں گے، ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرینگے ،ایک زور آور وزیراعظم جو کسی کے بلیک میلنگ میں نہیں آئینگے۔پھر 2014ء سے ایسا یوٹرن لیا کہ انہیں بیساکھیوں کی ضرورت پڑی اور مکمل سہولیات کے ساتھ وہ ن لیگ کے خلاف محاذ کھول کر سڑکوں پر نکلے اور دھرنے پر دھرنا دیتے رہے، ان کا مقصد صرف اقتدار تک پہنچنا تھا۔

2018ء میں جب عمران خان وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے ہر فور م پر یہ بات دہرائی کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ جمہوری حکومت کی ہر پالیسی کے ساتھ کھڑے ہیں ،اندرونی معاملات ہوںیاخارجہ پالیسی جنرل قمرجاوید باجوہ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں ،وہ ہماری حکومت کے معاملات میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کررہے اور نہ ہی ہمارے فیصلوں پر کوئی اثر انداز ہورہا ہے، ہم مکمل طور پرآزادانہ کام کررہے ہیں اور یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ایک ایسا آرمی چیف پاکستان کا ہے جو جمہوریت پسند ہیں اور جمہوری حکومت کے ہر فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں۔

بہرحال تعریفوں کے پُل باندھے گئے مگر جب عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک شروع ہوئی تو یہ صدائیں بلند ہونے لگیں کہ ملک خطرات سے دوچار ہونے جارہا ہے ،اس کو بچانے کے لیے اداروں کو نیوٹرل نہیں ہونا چاہئے۔ براہ راست انہوں نے پاک فوج کے ادارے کے سربراہ اور آفیسران کو کہا کہ یہ وقت نیوٹرل رہنے کا نہیں ، یعنی براہ راست عمران خان حمایت لینا چاہ رہے تھے مگرجب ان کی حکومت عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے فارغ ہوگئی تو انہوں نے موجودہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ اور فوج کے خلاف ہر جلسے میں ہرزہ سرائی کرنے لگے، ان کے نمائندگان بھی ہر فورم پر یہ بات دہراتے گئے کہ ہماری حکومت بیرونی سازش کے ذریعے ختم کی گئی اور اسٹیبلشمنٹ نے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا۔

عمران خان آج کل بیرونی سازش سے چار قدم آگے نکل کر اب یہ فرمارہے ہیں کہ وہ اتنے بے اثر وزیراعظم تھے کہ انہیں فیصلے کرنے کا اختیار تک نہیں تھا، وہ صرف وزیراعظم ہاؤس میں چند کاغذوں پر دستخط کرنے کے لیے بیٹھے رہتے تھے، فیصلے کسی اور جگہ ہوتے تھے جبکہ نیب سمیت دیگر ادارے بھی ان کی نہیں سنتے تھے۔ اب اتنے تضادات بھرے بیانات کی وضاحت موصوف خود کریں کہ وہ بااختیار وزیراعظم تھے یا بے اثر، اگر اتنے ہی بے اثراور بے اختیار تھے تو عمران خان نے کیوں کر فوری استعفیٰ نہیں دیا؟عوام جواب کے متلاشی ہیں۔