|

وقتِ اشاعت :   October 20 – 2022

ملتان کے نشتر اسپتال کی چھت اور صحن سے سینکڑوں لاشیں ملنے کا اندوہناک واقعہ سامنے آنے کے بعد کھلبلی مچ گئی ہے لیکن کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے ۔

متعلقہ ادارے ایک دوسرے پر ملبہ ڈال رہے ہیں یہ لاشیں کب سے پڑی ہیں اور کہاں سے لائی گئی ہیں شناخت کے لیے ڈی این اے کیونکر نہیں کرایا گیاکیونکہ لاشیںچند نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں ہیں جس پر بہت سارے سوالات اٹھائے جارہے ہیں مگر کوئی بھی تسلی بخش جواب نہیں دے رہا ۔ جب یہ معاملہ اٹھا تو سب سے پہلے سی سی پی او ملتان نے ذمہ داری اسپتال انتظامیہ پر ڈال دی ، اسپتال انتظامیہ کی جانب سے فوری تردیدآگئی اور پولیس کو ذمہ دار ٹہرایا گیا۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اتنا بڑا مسئلہ سامنے آنے کے بعد تو ہونا یہ چاہئے کہ ان لاشوں کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ انہیں کس نے یہاں لایا اوریہاں کیوں رکھے گئے ۔

ان کی ٹائمنگ کب تک رکھنے کی ہوتی ہے اور پھر تدفین کا عمل ضروری کارروائی کے بعد احترام کے ساتھ پورا کیاجائے۔ بہرحال اس حوالے سے تشویش کا اظہار مختلف حلقے کررہے ہیں مگر یہ نتیجہ خیز اس وقت ثابت ہوگا جب مکمل طور پر شفاف طریقے سے اس کی قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور یہ ضروری بھی ہے تاکہ جو مختلف افواہیں اور قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں ان کا سلسلہ تھم ہوجائے۔

اب ایک بار پھر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے نشتر اسپتال کی چھت سے لاشیں ملنے کے واقعے کا ذمہ دار مقامی پولیس کو ٹھہرا یا۔پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر مسعود ہراج نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام واقعے کی ذمہ دار پولیس ہے۔ڈاکٹر مسعود ہراج کا کہنا تھا اگر پولیس کی ذمہ داری نہیں تھی تو اب پولیس کیوں آئی، ڈی این اے کرانا پولیس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

صدر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا تھا حکومت کی جانب سے ڈاکٹروں کے خلاف فیصلے پر مطمئن نہیں ہیں، 28 دن تک لاش اسپتال رہ سکتی ہے، 28 دن بعد بھی پولیس لاش لینے نہیں آتی تو اسپتال کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔اب اس کے ردعمل میں دوبارہ جواب آجائے گا اور یہ معاملہ اسی طرح لٹکتا رہے گا مگر اس کی سنگینی کو بھانپانہیں جارہا ہے کہ اس وقت بہت سے حلقے مختلف باتیں کررہے ہیں جنہیںسیاسی رنگ دیاجائے گا اور اس کے منفی اثرات پڑنے کے بھی امکانات ہیں۔

لہٰذا قانونی کارروائی کرتے ہوئے تمام تر ضروری اقدامات کئے جائیں تاکہ اس حوالے سے جو تشویش پائی جاتی ہے وہ ختم ہوجائے ،افواہیں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ بھی تھم جائے وگرنہ معاملہ طول پکڑتا جائے گا اور اس حوالے سے مزید غلط معلومات کی بھرمار شروع ہوجائے گی ۔خدارا ،اس معاملے کو ایڈریس کیاجائے، صوبائی اور وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس حوالے سے وہ اپنا کردار ادا کریں۔