|

وقتِ اشاعت :   October 25 – 2022

اسلام آباد: وفاقی وزیر منصوبہ بندی ترقی واصلاحات وخصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا ہے کہ سابق حکومت نے چین کو مہنگے منصوبوں کا الزام لگا کر ناراض کر دیا، اب ہم چین کا اعتماد بحال کر رہے ہیں، سی پیک پر پاک چین مشترکہ جے سی سی اجلاس کی تیاریاں جاری ہیں۔

پاکستان کی ساری حکومت ادھار پر چل رہی ہے، آئند ہ پانچ سال میں ملکی برآمدات 30 ارب سیبڑھاکر 100 ارب ڈالر تک لے جانے کی ضرورت ہے،گزشتہ چار سال کے دوران معاملات ایڈہاک ازم پر چلائے گئے، ملک کی ترقی کی سالانہ ضروریات 1900 ارب روپے ہیں،موجودہ مالی سال ترقیاتی منصوبوں کیلئے صرف 700 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ترقی و منصوبہ بندی کے اجلاس میں کیا۔ اجلاس چیئرمین کمیٹی خالد مگسی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے اجلاس کو بریفنگ دی۔

اس موقع پر وفاقی وزیر نے کہا کہ اگلے پانچ سال میں ملکی برآمدات 30 ارب سے 100 ارب ڈالر تک لے جانے کی ضرورت ہے، اگر برآمدات 100 ارب ڈالر تک لے جانے میں 10 سال لگے تو پھر بڑی مشکلات ہونگی۔گزشتہ چار سال کے دوران معاملات ایڈہاک ازم پر چلائے گئے، ملک کی ترقی کی سالانہ ضروریات 1900 ارب روپے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ موجودہ مالی سال ترقیاتی منصوبوں کیلئے صرف 700 ارب روپے رکھے گئے، گذشتہ چار سال 42 فیصد وفاقی فنڈز صوبائی منصوبوں کیلئے مختص کر دیئے گئے، وفاقی منصوبوں کیلئے بہت کم فنڈز بچے، نون لیگ نے اپنے دور میں ویڑن 2010 اور پھر ویڑن 2025 دیا،گذشتہ حکومت پانچ سالہ منصوبے کی منظوری دینے میں ناکام رہی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی ٹیکس آمدن اس سال 7 ہزار ارب ہوگی، اس میں سے 4 ہزار ارب روپے صوبوں کو چلیجائیں گے، وفاق کے پاس تین ہزار ارب روپے بچ جائیں گے، وفاقی حکومت کو 2 ہزار ارب نان ٹیکس ریونیو بھی حاصل ہوگا، مجموعی 5 ہزار ارب روپے میں سے 4 ہزار ارب قرض کی ادائیگی پر چلا جائے گا، اس سال دفاعی بجٹ 1500 ارب روپے ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ دفاعی بجٹ کیلئے بھی 500 ارب ادھار لینا پڑے گا، حکومتی امور چلانے، پنشن اور سبسڈی کیلئے بھی ادھار لینا پڑے گا۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی ، اصلاحات و خصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا کہ چین کو سی پیک میں متبادل راہداری ملنے کا فائدہ ہے۔

چین کی تجارت کا 5فیصد حصہ بھی پاکستان سے شروع ہو جائے تو اس کا پاکستان کو بہت فائدہ ہو گا ،چین کی کمپنیوں نے آئی پی پیز موڈ پر انرجی منصوبے لگائے۔ انہوں نے کہا کہ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو پلان ہے،پاکستان کواپنے محل وقوع کا فائدہ ہے،ہم ایک بڑے ریجن کے درمیان تجارتی مرکز بن سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انفراسٹرکچر منصوبوں کیلئے رعایتی قرض چین نے دیا،2020 سے 2025 کے درمیان ہم نے صنعتی تعاون پر جانا تھا،چین میں لیبر مہنگی ہونے کی وجہ سے 8 کروڑ سے زائد روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اقتصادی زون 2020 تک تیار ہونے چا ہیے تھے ،بدقسمتی سے ایک بھی زون تیار نہیں ہوسکا،ہماری کوشش ہے چین سے صنعتی شعبے میں تعاون بڑھایا جائے۔ احسن اقبال نے کہا کہ تحریک انصاف کے دور میں چینی کمپنیوں کیلئے ویزوں پر مسائل پیدا ہوئے۔

ایسے ماحول میں کون کام کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد این ایف سی کے تحت محاصل کا 58فیصد صوبوں کو چلا جاتا ہے،پائیدار بنیادوں پر اقتصادی ترقی کی پالیسیوں کا تسلسل اور سیاسی استحکام ضروری ہے،ترقیاتی پروگرام میں قومی نوعیت کے منصوبوں کو ترجیح دی جارہی ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں کسی کا منصوبہ پی ایس ڈی پی میں نہیں ڈال سکتا،یہ سکیمیں پی ایس ڈی پی میں شامل کرنے کا وقت نہیں ہے۔

اجلاس میں رکن کمیٹی سید محمود شاہ نے کہا کہ ہمارے حلقے کا کوئی منصوبہ پی ایس ڈی پی میں نہیں۔