|

وقتِ اشاعت :   November 4 – 2022

گوجرنوالہ میں پی ٹی آئی مارچ پرحملے کے بعد سیاسی ماحول زیادہ کشیدہ ہوگیا ہے۔ تحقیقات سے قبل الزامات لگانا قطعاََ ٹھیک نہیں ہے جب تک مکمل طور پر واقعے کی تفصیلات سامنے نہیں آتیں، الزامات سیاسی حالات کو خراب کریں گی، حملہ آور نے کس کے کہنے پریہ سب کیا، کیوں کیا ؟اب تک اس نے اپنے بیان میں بہت کچھ بتادیا ہے جبکہ پولیس مزید اس میں تحقیقات کرے گی کہ آیا کوئی اس کے پس پشت بھی ہے اگر ہے تووہ کون ہے ؟ بہرحال اس واقعے نے وفاقی حکومت اور اپوزیشن کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے مگر الزامات کی سیاست نے اس ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے ماضی بھی اس کی گواہ ہے کہ سیاسی اختلافات کی وجہ سے ملک میں بحرانات پیدا ہوتے رہے ہیں ۔

تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے سیاسی مسائل کو بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے بجائے یہ کہ حالات کومزید کشیدگی کی طرف دھکیلا جائے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا کہنا ہے کہ عمران خان نے قاتلانہ حملے میں ملوث 3 لوگوں کے نام بتائے ہیں۔ایک ویڈیو بیان میں اسد عمرکا کہنا تھا کہ عمران خان نے مجھے اور اسلم اقبال کو بلایا اور کہا کہ میری طرف سے یہ بیان جاری کریں کہ میرے پاس پہلے سے اطلاع آرہی تھی، عمران خان نے کہا کہ 3 لوگوں پر یقین ہے جنہوں نے یہ سب کرایاہے عمران خان نے کہا یہ 3 لوگ شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور ایک سینئر فوجی افسر ہیں۔

اسد عمرکا کہنا تھا کہ عمران خان نے کہا کہ ان کے پاس معلومات پہلے سے آرہی تھیں، اس بنیاد پرکہہ رہے ہیں یہ قاتلانہ حملہ ان تینوں نے کرایا۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کہتے ہیں حقیقی آزادی کے لیے جان دینے کو تیار ہوں، بہت زیادہ خبریں آرہی تھیں کہ سیکیورٹی کا خطرہ ہے، عمران خان کو بتایا کہ یہ خبریں آرہی ہیں، عمران خان نے کہا ہم جہاد پر نکلے ہوئے ہیں، ہمیں اللہ پر معاملہ چھوڑ دینا چاہیے، اللہ میری حفاظت کریگا۔دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے گوجرانوالہ میں فائرنگ کی شدید مذمت کرتے ہوئے واقعے کی فوری رپورٹ طلب کرلی ہے۔

وزیراعظم نے وزیر داخلہ کو آئی جی پولیس اور چیف سیکرٹری پنجاب سے فوری رپورٹ طلب کرنے کی ہدایت کی ہے۔وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت سیکیورٹی اور تفتیش کے لیے پنجاب حکومت کی بھرپور مدد کریگی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ تشدد کی ہمارے ملک کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں، عمران خان پر فائرنگ کے واقعے کی مذمت کرتا ہوں۔اس کے ساتھ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے بھی پریس بریفنگ کے دوران اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی اختلافات کا جواب پریس کانفرنسز اور بیانات کے ذریعے ہم دیتے ہیں لیکن تشدد کی ہمیشہ مخالفت کی ہے اور اب بھی اس عمل کے خلاف ہیں۔

البتہ جو سیاسی منظر نامہ اب بن رہا ہے وہ کسی طرح نیک شگون نہیں ہے اگر ہر معاملے پر سیاست کی جائے گی تو اس کا نقصان سب کو ہوگا ۔جہاں تک خونی مارچ کی بات ہے تو فیصل واوڈا جو عمران خان کے سب سے قریبی ساتھی رہ چکے ہیں انہوں نے بھی اس کا انکشاف کیا تھا کہ کچھ لوگ خون خرابہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ آج بھی وہ عمران خان کو اپنا قائد مانتے ہیں۔ اس کے بعد علی امین گنڈاپورکی مبینہ آڈیو لیک اور کے پی کے کے وزیر تعلیم کا بیان بھی سامنے ہے ۔ سیاسی معاملات اس طرح سے آگے نہیں بڑھ سکتے اور نہ ہی اس سے پارلیمانی سیاست کی سمت درست ہوجائے گی بلکہ تشدد کا عنصر غالب آئے گا پہلے سے ہی ملک کو بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے ،اب اندرون خانہ اس طرح کے حالات پیدا ہونگے تو انتشار اور انارکی جیسی صورتحال بن جائے گی جس سے بڑے سانحات کا خطرہ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ لہٰذا بات چیت ہی اس کا حل ہے تاکہ کوئی درمیانہ راستہ نکال کر حکومت اوراپوزیشن معاملات کو حل کریں، الزامات اور تشدد سیاست کو بند گلی میں داخل کردے گا۔