گزشتہ چند برسوں کے دوران احتجاج، دھرنا،پُرتشدد مظاہرے جیسے سیاسی حالات نے ملک کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ملک کو بیرونی چیلنجز سے زیادہ اب اندرون خانہ خطرات کا سامنا ہے مگر یہ ٹل سکتا ہے اور ملک میں اندرون خانہ سیاسی استحکام آسکتا ہے لیکن جب تک سیاسی قیادت پہل نہیں کرے گی ،ساتھ بیٹھ کر مسائل حل کرنے کے حوالے سے اپنے مائنڈ سیٹ میں تبدیلی نہیں لائے گی ۔
المیہ یہ ہے کہ ماضی کے نقوش اب تک ذہنوں میں موجود ہیں کہ کس طرح سیاسی جماعتوں کی آپسی کشیدگی کی وجہ سے ملک مسلسل عدم استحکام کا شکار رہا ہے اور غیر جمہوری دور کا ایک طویل عرصہ بھی سیاسی جماعتوں کی کمزوری کی وجہ سے رہا ہے۔
اگر سیاسی جماعتیں اپنی جنگ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر آئین وقانون کے اندر رہتے ہوئے لڑیں تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں مگر سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کی بدترین دشمنی پر اتر آئیں اور قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے تمام ترسیاسی اصولوں اوراقدارکو روندتے ہوئے آگے بڑھیں گے تو نتائج خراب ہی نکلیں گے۔بہرحال حالیہ سیاسی جنگ میں اداروں کو بھی درمیان میں لایاجارہا ہے کبھی پاک فوج تو کبھی عدلیہ پر تنقید کی جاتی ہے دونوں اداروں کی جانب سے واضح پیغامات ملتے ہیںکہ سیاسی معاملات کو سیاسی جماعتیں خود حل کریں۔ گزشتہ روزاسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے جھگڑے عدالتوں میں نہ لائیں اور پارلیمنٹ کو مضبوط کریں جبکہ عدلیہ بھی اختیارات کی تقسیم کے اصول کو مدنظر رکھنے کی پابند ہے۔
اپنے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں کوئی کریڈٹ نہیں لینا چاہتا کیونکہ ساتھی ججز اور متحرک بار کے بغیر کچھ ممکن نہ تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ دیگر ہائیکورٹس کی طرح نہیں، اس کا ایک الگ اسٹیٹس ہے، یہ صرف ایک علاقے کی ہائیکورٹ نہیں بلکہ فیڈریشن کی نمائندگی کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے فیصلوں میں باربار دہرایا ہے کہ قانون کی حکمرانی نہیں، یہ بھی فیصلوں میں لکھا کہ قانون صرف اشرافیہ کے لیے ہے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے جھگڑے عدالتوں میں نہ لائیں اور پارلیمنٹ کو مضبوط کریں جبکہ عدلیہ بھی اختیارات کی تقسیم کے اصول کو مدنظر رکھنے کی پابند ہے۔
ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری آدھی سے زیادہ زندگی ڈکٹیٹرشپ میں گزرگئی، یہ ہمارا المیہ ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہی، ہمارا ایک مخصوص کردار ہے اور ہم صرف فیصلہ دے سکتے ہیں، آئین کی عملداری اسی وقت ہوسکتی ہے جب مائنڈ سیٹ تبدیل ہو، سیاسی لیڈرشپ آئین کی عمل داری کو مضبوط کرسکتی ہے۔البتہ جس طرح کے سیاسی حالات اس وقت بن رہے ہیں اس سے نہیں لگتا کہ کوئی درمیانہ راستہ نکل پائے گا ۔
پی ٹی آئی نے لانگ مارچ دوبارہ شروع کرنے کافیصلہ کیا ہے ۔دوسری جانب حکومت نے بھی مکمل تیاری کرلی ہے۔ شہر اقتدار کیا میدان جنگ بن جائے گی اگر ایسا ہوا تو یقینا اس سے ملک کو نقصان ہوگا لہٰذا سوچ بچار کے ساتھ فیصلے کئے جائیں جس سے کوئی بہت بڑا سیاسی بحران پیدا نہ ہو، جس کا بعد میں سیاسی جماعتوںکو پچھتاوا ہو۔