|

وقتِ اشاعت :   November 8 – 2022

پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران جس نے ملک میں ایک بے یقینی کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے جوایک جانب جہاں عام آدمی کے ذہن کو متاثر کررہا ہے، وہیں اس نے ملک کے عام آدمی کے مسائل کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے۔ وطن عزیز کے لوگ موجودہ سوشل میڈیا کے دورمیں سیاسی شعور کے بجائے سیاسی عقیدت کاشکار ہوچکے ہیں۔یہ بات شاید بہت سے لوگوں کو بری لگے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سیاسی عقیدت سیاسی شعور کی موت ہے۔ بیانیے کی جنگ نے دلیل اور مثبت بحث کو ختم کردیا ہے۔ سیاسی بیانیہ بنانے میں گوبلز کی تھیوری کا کامیاب استعمال ہورہا ہے،یعنی جھوٹ اتنا بولو کہ سچ کا گماں ہونے لگے۔اس کا کامیابی سے استعمال ہورہاہے ،کسی بھی چیز کو بغیر سوچے سمجھے کٹ پیسٹ کرکے اسے سچ ثابت کرنا اور اس پر ڈٹ جانا ہماری فطرت کا جزو بن چکا ہے، ہم اب بحث قائل کرنے کے لیے نہیں بلکہ مخالف پر فتح کی نیت سے کرتے ہیں۔

فوجی اسٹیبلشمنٹ جو چند عرصہ پہلے ایک سیاسی جماعت کی ہیرو اور دوسری سیاسی جماعت کی ولن تھی پھر اچانک بیانیے تبدیل ہوگئے جو مخالف تھے اور اسٹیبلشمنٹ کی تائید اور مخالف بیانیے کے حامیوں کو وطن غدار قرار دینے لگے جو کچھ عرصے قبل حامی بیانیے کے لوگ تھے۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ سیاسی عقیدت کی اندھی تقلید نے سیاسی شعورکو پنپنے ہی نہیں دیا۔ روز اول سے پاکستان کی تشکیل کے ساتھ ہی جب سیاسی لڑائی تھکانے لگتی ہے تو سیاست دان ماورائے آئین قوتوں کو اقتدار کی دعوت دنیا شروع کردیتے چاہے وہ گورنر جنرل ہو یا فوجی آمر ہو، اور سیاست دانوں کے اختلافات کو آمر شخصیات فوراً اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے پرتیار رہتے ہیں۔ آئین کی محافظ عدلیہ نے بھی ماضی میں ہمیشہ ماورائے آئین اقدامات پر نظریہ ضرورت کی مہر ثبت کرکے اسے قانونی جواز دی ا ورآئین میں موجودآئین توڑنے کی سزا کو ساقط کیا۔ موجودہ صورتحال میں بھی ہیجان پیدا کرکے آئین سے ماورائے اقدامات کا مطالبہ کیا جارہا ہے، ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف متحدہ اپوزیشن نے انتخابات کے مظاہرہ پر اپنی جدوجہد شروع کی تھی۔

اس میں کتنی ملکی اورغیر ملکی قوتیں ملوث تھیں یہ اب سب کے سامنے آشکار ہوچکا ہے لیکن سب سے شرمناک بات یہ تھی کہ جب ذوالقفار علی بھٹو نے حزب اختلاف کے مطالبے پر گھٹنے ٹیک دیے اور انتخابا ت کا مطالبہ مان لیا تو صرف دو گھنٹے بعد ہی عزیز ہم وطنو کی تقریر ہوگئی، انتخابات کا مطالبہ طویل عرصے تک اپنی موتآپ مر گیااوربھٹو کے مخالفین صرف اس بات پر خوشیاں مناتے رہے کہ انہوں نے حکومت ختم کرکے بھٹو کو نہ صرف حکومت سے علیحدہ کردیا بلکہ اس کو دنیا سے بھی روانہ کردیا۔ سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں ہوتی ہیں تو موقع پرست لوگ حکمرانوں کے قریب آجاتے ہیں اور سیاسی جماعت کا عوام سے رابطہ نہ ہونے کے برابر ہوجاتا ہے اور عوام اپنی قیادت سے دور ہو جاتے ہیں اور جب کسی ردعمل پر عوام کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ لاتعلق ہوجاتے ہیں۔یہی ذوالفقار علی بھٹواور نواز شریف کے ساتھ بھی ہوا۔ بھٹو کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد بڑے بڑے جلسے بھی ہوئے لیکن ان کی گرفتاری اور پھانسی کی سزا کے بعد ان کے قریبی رفقاء نے عوام کو متحرک کرنے میں کوئی موثر کردار ادا نہیں کیا۔ نواز شریف نے بھی اقتدار سے علیحدگی کے بعد عوام کو متحرک کرنے کی کوشش کی اور خاصے حد تک کامیاب بھی رہے لیکن وہ بھی اس لہر کو زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رکھ سکے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں ایک آئینی طریقے سے حکومت جانے کے بعد عمران خان نے بہت ہی کامیابی سے اپنا بیانیہ بنایا۔عمران خان کے پاس سوشل میڈیا کے جنگجوئوں کی کامیاب ٹیم ہے۔

موجودہ ٹیکنالوجی کے دور میں ان کا سب سے کامیاب ہتھیار بھی یہی ہے۔بھٹو اور نوازشریف کے مقابلے میں اس وقت عمران خان کی تحریک زیادہ کامیاب ہے۔عمران خان کو اس وقت سب سے بڑا ایڈوانٹیج سوشل میڈیا کا ہے، جہاں پر بے خوف جنگجو ان کے بیانیے کو کامیاب بنا رہے ہیں۔سوشل میڈیا کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں ماورائے آئین ہاتھ انتہائی محتاط ہے اور کھل کر کوئی کارروائی نہیں کررہا ہے جس سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کو اور مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔ تحریک انصاف کے کامیاب جلسوں اور انتخابات میں مسلم لیگ ن کی نیم دلی شرکت عمران خان کی کامیابی ان کے بیانئے کو مزید تقویت دے رہی ہے، اب وہ للکار کر گرے ایریا میں بھی چیلنج کررہے ہیں؂ہاں پر ان کے حق میں وقت کا چنائو بھی سازگار ہے،اسٹیبلشمنٹ کے اندرون خانہ لوگوں کے مطابق جب آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کا اعلان ہوجاتا ہے تو بنیادی نوعیت کے فیصلے رک جاتے ہیں ، اس وقت فوج مخالف بیانیے پرآئی ایس پی آر بیانات کی حد تک تو متحرک ہے لیکن بادی النظر میں آہنی ہاتھ کا استعمال نظر نہیں آرہا۔ماضی میں فوج مخالف بیانیے کی کوشش کے ایک بیان پر صدر آصف علی زرداری کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا اور انہیں میمو گیٹ اسکینڈل کا بھی سامنا کرنا پڑا،جبکہ نواز شریف کو ڈان لیکس کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا اور تاحیات نااہلی تک جاپہنچے۔وطن عزیز کی خوش گماں لوگوں کا خیال ہے کہ مارشل لاء ملک کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔

لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ملک میں جتنی بھی کامیابی فوجی بغاوتیں ہوئیں وہ آرمی چیف کی قیادت میں ہوئی ہیں۔تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کوئی آرمی چیف جمہوری حکومت کا تختہ الٹتا ہے تو وہ کامیابی کی شکل اختیار کرکے انقلاب بن جاتا ہے، عدلیہ بھی اسے جائز قرار دے دیتی ہے لیکن حالات بدلنے کے لیے یہی کوشش جب کسی جرنیل یا فوجی افسران کی جانب سے کی جاتی ہے تو وہ ناکام ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں حکومت صرف اس وقت بدلتی ہے جب فوجی افسروں کو آرمی چیف کی حمایت حاصل ہو۔ قیام پاکستان کے بعد فوجی بغاوتوں پر نظر ڈالی جائے تو پہلی بغاوت 1951میں ہوئی۔جیسے راولپنڈی سازش کیس کے نام سے جانا جاتا ہے، میجر جنرل اکبر اور ان کے ساتھیوں نے یہ بغاوت اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان کے خلاف کی تھی۔ اس فوجی ٹولے کا خیال تھا کہ حکومت مسئلہ کشمیر میں جنگ بندی کرکے مصالحت سے کام لے رہی ہے جس سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچا ہے۔پاکستان کی پہلی کامیاب فوجی بغاوت ایوب خان نے 1958میں کی۔جب وہ فوج کے سربراہ تھے، ایوب خان کے کمزور ہونے کے بعد اور ان سے استعفیٰ لینے کے بعد دوسری کامیاب فوجی بغاوت اس وقت کے چیفآف آرمی اسٹاف جنرل یحییٰ خان نے 1969میں کی۔انہوں نے جمہوری طاقتوں کو اقتدار دینے کے بجائے ملک پر مسلط رہنا پسند کیا جس سے ملک دو لخت ہوگیا۔

بعد میں اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کردیا گیا جوپہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹر بنے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں نوجوان فوجی افسران (جو بھٹو کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب سمجھتے تھے) نے 1973میں ناکام بغاوت کی، جیسے اٹک سازش کیس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1977میں اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیا ء الحق نے جمہوری حکومت کا تختہ اس وقت الٹا جب حکمراں ذوالفقار علی بھٹو نے حزب اختلاف کے مطالبات مانتے ہوئے انتخابات پر رضامندی ظاہر کی۔1980میں جنرل تجمل حسین نے جنرل ضیا الحق کی حکومت کے خلاف ناکام بغاوت کی۔اس طرح ضیا الحق کے دور میں 1984میں ایسی ہی فوجی اور سویلین بغاوت ناکام بنائی گئی۔جس کے لیے بتایا جاتا ہے کہ اسلحہ بھارت سے لایا گیا تھا۔ 1995میں اس وقت کے باغی ارکان جس کی قیادت میجر جنرل ظہیرالسلام عباسی اور بریگیڈیئر مستنصر بلا نے اسلامی انقلاب کیلئے ناکام فوجی بغاوت کی۔1999میں پھر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم نوازشریف کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ان تاریخی حقائق کا حوالہ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی بھی فوجی بغاوت آرمی چیف کی سربراہی کے بغیر ناکام رہی ہے۔

موجودہ حالات میں بنائے جانے والے بیانیے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سیاسی بحران میں مارشل لاء لگا کر فوج اقتدار پر قبضہ کرلے گی اور فوج کی اکثریت بھی موجودہ حکومت سے نالاں ہے۔موجودہ تناظر میں یہ مفروضہ قابل عمل نظر نہیں آرہا کہ اعلیٰ فوجی قیادت کے بغیر یہ اقدام قابل عمل ہوسکتا ہو۔مارشل لا ء لگنے کی صورت میں فوری انتخابات کا مطالبہ ماضی کی طرح ڈسٹ بن کی نذر ہوجائے گا۔سیاسی عقیدت مندی ،سیاسی شعور کے سامنے آہنی دیوار ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سیاستدان جب ناکام ہونے لگتے ہیں تو وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کی دعوت دیتے ہیں اور ہر سیاسی جماعت فوجی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے آناچاہتی ہے اور یہ ان سیاسی عقیدت مندوں یا عوام کو صرف اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔