ولادیمیر لینن کے ہمراہ اکتوبر 1917ء کے بالشویک انقلاب کی قیادت کرنے والے لیون ٹراٹسکی کو آج سے 73 سال قبل، 21 اگست 1940ء کو میکسکو میں جلاوطنی کے دوران قتل کر دیا گیا۔بعد میں منظر عام پر آنے والی دستاویزات سے ثابت ہوا کہ سوویت انٹیلی جنس کے لئے کام کرنے والے کرائے کے قاتل رامن مرکاڈر نے اسٹالن کے حکم پر ٹراٹسکی کوقتل کیا تھا۔ تاریخ کا ستم دیکھیں کہ بالشویک انقلاب کے قائد کے قاتل کو اس کی خدمات کے اعتراف میں سٹالن نے سوویت یونین کے سب سے بڑے انعام’ آرڈر آف لینن‘ سے نوازا۔
لیون ٹراٹسکی کا اصل نام لیو ڈیویڈووچ برانسٹائن تھا اور وہ یوکرین کے شہر کیردوگراڈ میں 26 اکتوبر 1879 ء ( پرانے روسی کینڈر کے مطابق ) کو پیدا ہوا۔ ٹراٹسکی ، برانسٹائن کا قلمی نام تھا جو اس نے زاروں کے عقوبت خانے میں قید کے دوران اختیار کیا۔ نو جوانی کے دنوں میں ہی وہ خفیہ مارکسی ( تنظیم کے) اسٹڈی سرکل میں شمولیت کر کے ایک انقلابی بن گیا اور پھر کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا۔ 1905ء کے پہلے روسی انقلاب کے دوران وہ پیٹرو گراڈ سوویت کا سر براہ منتخب ہوا۔ سوویت روسی زبان کا لفظ ہے ، اردو میں جس کے معنی پنچایت کے ہیں۔ پیٹرو گراڈ سوویت روسی انقلاب اور پرولتاریہ کے گڑھ میں 1905ء کے انقلاب کے دوران جنم لینے والی پہلی مزدور تنظیم تھی جس نے 1917ء کے انقلاب میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
ابتداء میں ٹراٹسکی ، لینن کے ساتھ انقلابی کام میں مصروف رہا لیکن 1903ء میں ( رشین ڈیموکریٹک لیبر پارٹی) کے اندر تنظیمی اور نظریاتی بنیادوں پر ہونے والی تقسیم کے باعث دونوں الگ ہو گئے۔ دونوں کے مابین بنیادی اختلاف روسی انقلاب کے کردار پر تھا۔ ٹراٹسکی انقلابِ مسلسل کے نظریے کا خالق اور وکیل تھا۔ تقریبا 14 سال کے مباحثے اور غور ووخوض کے بعد لینن نے ٹراٹسکی کے نظریے کے حق میں نتائج اخذ کئے۔ فروری 1917ء میں انقلابی شورش کے ذریعے عوام نے زار کی حکومت کا خاتمہ کر دیا اور کئی سالوں کی جلا وطنی کے بعد روس واپس لوٹنے والے لینن اور ٹرانسکی ایک بار پھر انقلابی جدوجہد میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ شریک ہو گئے۔ جلاوطنی سے واپسی کے دوران لینن نے اپنا مشہورِ زمانہ اپریل تھیسس تحریر کیا جس میں اس نے انقلاب روس کے سوشلسٹ کردار کی توثیق کی۔ دو عظیم انقلابیوں کے درمیان اس نظریاتی اتحاد نے اس انقلابی جڑت کی بنیاد رکھی جو 1924ء میں لینن کی وفات تک قائم رہی۔
نظریہ انقلاب مسلسل کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام کی ترویج میں تاخیر زدگی کا شکار تاریخی طور پر پسماندہ ممالک میں قومی جمہوری انقلاب کے فرائض صرف مزدور ریاست ہی مکمل کر سکتی ہے اور مزدور ریاست کا قیام سرمایہ داران ملکیتی رشتوں پر ضرب لگائے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یوں انقلاب ،قومی جمہوری مرحلے سے آگے بڑھ کر سوشلسٹ مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس نظریے کی جھلک سے ہی نعرہ” انقلاب مسلسل ہونا چاہئے ؟‘‘ 1917 ء کا انقلاب روس اس نظریے کی پہلی کامیاب مثال تھی۔ اکتوبر 1917ء میں مزدوروں نے اقتدار پر صرف اس لئے قبضہ کیا کہ فروری انقلاب کے ذریعے اقتدار میں آنے والی بورژوازی قومی جمہوری انقلاب کا ایک بھی فریضہ ادا کرنے کی اہل نہیں تھی۔ پاکستان جیسے ممالک میں یہ نظر یہ اور بھی درست ہے جہاں مقامی حکمران طبقہ پچھلے چھیاسٹھ سالوں میں سماجی طور پر سرمایہ داری کا ایک بھی تاریخی فریضہ ادا نہیں کر سکا۔ انقلاب مسلسل کا نظریہ کے بڑے بڑے سرمایہ دارانہ ممالک سے سماجی اور معاشی طور پر بر باد ہونے والے تیسری دنیا کے عوام کے لئے مشعل راہ ہے۔
ٹراٹسکی کے حریف اور قاتل جوزف سٹالن کی تحریریں انقلاب روس میں اس کے قائدانہ کردار کی گواہ ہیں۔ 10 نومبر 1918 ء کو اسٹالن نے پارٹی کے سرکاری اخبار پراودھا میں لکھا ’’ انقلابی سرکشی کے تمام تنظیمی امور کامریڈ ٹراٹسکی کی ہدایات کے تحت انجام پائے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس برق رفتاری سے سپاہی سوویت کے ساتھ طے اور جس مستعدی سے انقلابی ملٹری کمیٹی نے کام کو منظم کیا وہ سب کامریڈ ٹراٹسکی کا مرہون منت ہے جس کے لئے پارٹی ان کی احسان مند ہے۔‘‘
انقلاب کے بعد شروع ہو جانے والی خانہ جنگی میں سرخ فوج کے قائد کی حیثیت سے ٹراٹسکی ردِ انقلابی فوجوں کے سامنے آہنی دیوار بن گیا۔ یہ جنگ بالشویک انقلاب کو کچلنے کے لئے اکیس ممالک کی فوجوں کے روس پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھی جن میں امریکہ جیسے بڑے سامراجی ممالک بھی شامل تھے۔
زار کی بھی تین لاکھ سپاہیوں کی تباہ حال اور پست حوصلہ فوج کو ٹراٹسکی نے ایک کروڑ اسی لاکھ پر مشتمل ہیبت ناک سرخ فوج میں تبدیل کر دیا۔ محنت کشوں کے انقلاب کے دفاع کے لئے لینن نے دنیا بھر کے مزدوروں سے مدد اور یکجہتی کی اپیل کی جس کے جواب میں جارح ممالک کے اندر مزدوروں نے ہڑتالیں کیں اور ریاستی نافرمانی شروع ہوگئی۔ رد انقلابی سامراجی قوتوں کو انقلابی سپاہیوں پر مجبوراً پسپا ہونا پڑا۔ ٹراٹسکی امور خارجہ اور تعلیم جیسے بنیادی شعبوں کا کومیسار ( ذمے دار وزیر) بھی رہا اور نو مولود مزدور ریاست کو مستحکم کرنے لئے دن رات جانفشانی سے کام کیا۔ تاہم اس کی سب سے اہم جد و جہد روس کی پسماندگی اور تنہائی کے سبب شروع ہو نے والی انقلاب کی افسر شاہانہ زوال پذیری کے خلاف تھی۔ بالشویک انقلاب کے بعد جرمنی سمیت یورپ کے کئی ممالک میں محنت کشوں نے انقلابی سرکشیاں کیں جنہیں بے دردی سے ریاستی جبر کے ذریعے کچل دیا گیا۔ نتیجتاً انقلاب سماجی ومعاشی اور تکنیکی طور پر روس جیسے پسماندہ ملک میں مقید ہو کر رہ گیا۔ 25-1924ء کے چینی انقلاب کی شکست کے بعد روسی انقلاب کی زوال پذیری کا عمل اور بھی تیز ہوگیا۔ قلت اور ثقافتی پسماندگی کے باعث عوام اور سماج سے بالاتر ہوکر مراعات حاصل کرنے والی بیورو کریسی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ٹراٹسکی کی کلاسیکل اپوزیشن تھی جس سے وابستہ کامریڈز بالشویک انقلاب کے حقیقی کردار اور مقاصد کو بچانے کی جنگ لڑ رہے تھے۔ 1927ء میں ٹراٹسکی کو ریاستی عہدے سے معزول کر کے کمیونسٹ پارٹی سے نکال دیا گیا اور 1929 ء میں روس سے جلا وطن کر دیا گیا۔ شہرت کی بلندیوں سے گر کر وہ ایک ایسا انسان بن گیا جس کے لئے یہ دنیا ویزے کے بغیر سیارہ تھی۔ تاہم اس عہد میں بھی وہ اپنے نظریات پر ڈٹا رہا اور سٹالنزم کے خلاف مردانہ وار جد و جہد جاری رکھی۔
جلاوطنی میں مارکسی نظریات اور تناظرات پر اس کی تحریریں آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بن گئیں۔ 1936ء میں اس نے اپنی شاہکار کتاب “انقلاب سے غداری” تحریر کی جس میں روسی انقلاب کی افسر شاہانہ زوال پذیری اور معیشت پر محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول رفتہ رفتہ چھن جانے کی وجوہات پر سائنسی نقطہ نظر سے روشنی ڈالی۔ اس کتاب میں ٹراٹسکی نے جو پیش گوئیاں کیں وہ پانچ دہائیوں کے بعد دیوار برلن کے گرنے اور سوویت یونین کے انہدام کی شکل میں سچ ثابت ہوئیں۔
سٹالنزم کے خلاف جدو جہد اور پرولتاری بین الاقوامیت کا پرچم سر بلند رکھنے کی پاداش میں ٹراٹسکی کے زیادہ تر اہل خانہ کواس کی زندگی میں ہی قتل کروادیا گیا۔ اس کے ہزاروں انقلابی ساتھی یخ بستہ سائبیریا کے عقوبت خانوں میں بھوک ، سردی اور جبری مشقت سے ہلاک ہو گئے۔ سوویت بیوروکریسی کے وظیفہ خوار کمیونسٹوں اور سرمایہ داری کے خدمت گزار دانشوروں نے ٹراٹسکی کے کردار کو مسخ اور اس کے نظریات کو غلط ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن تاریخ نے اسے ہر الزام سے بری کرکے اس کے نظریات کو “سچ “ثابت کیا۔ لیون ٹراٹسکی کی پوری زندگی مارکسسٹ تھیوری کی بالیدگی، ارتقاء اور اضافے اور مارکسی نظریات کو عملی جامہ پہنانے کی جد و جہد سے عبارت ہے۔
زندگی کے آخری ایام میں ٹراٹسکی کے یہ الفاظ استحصال سے پاک انسانیت کے مستقبل پر اس کے یقین اور اس عظیم مقصد کی جد و جہد میں کسی تذبذب یا پچھتاوے سے پاک اس کے عزم و حوصلے کے گواہ ہیں۔ جب تک میری سانس جاری ہے مَیں پر امید ہوں۔ جب تک میں سانس لیتا رہوں گا مستقبل کی لڑائی جاری رکھوں گا، ایک درخشاں مستقبل، جس میں انسان مضبوط اور خوبصورت ہو کر تاریخ کے دھارے کو اپنے قابو میں کرے گا اور اسے خوبصورتی ، خوشی اور مسرت کے لامحدود افق کی طرف موڑ دے گا… تھوڑی دیر پہلے نتاشا نے باغیچے کی طرف کھلنے والی کھڑکی کو تھوڑا اور کھول دیا تا کہ کمرے میں ہوا کا گزر ہو جائے۔ میں دیوار کے نیچے گھاس کی چمکدار سبز تہہ کو دیکھ سکتا ہوں جس کے اوپر شفاف نیلا آسان ہے، ہر طرف سورج کی روشنی ہے۔ زندگی خوبصورت ہے۔ مستقبل کی نسلیں اسے مصائب ظلم اور جبر سے پاک کر کے ہرممکن حد تک لطف اندوز ہوسکیں گی۔‘‘