لسبیلہ یونیورسٹی انتظامیہ طلبا کے خلاف من گھڑت ایف آئی آردرج کراکے اپنی آمرانہ رویوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ طلبا گزشتہ تین روز سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ہیں تاحال یونیورسٹی سمیت لسبیلہ انتظامیہ کی طرف سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ خبر نہ تو کسی میڈیا پر آئی ہے اور نہ ہی کسی معروف صحافی نے اسے رپورٹ کرنے کی زحمت کی ہے۔ اگر یوں ہی مسائل کو دباتے رہیں تو انکے نتائج بھیانک شکل میں نکل سکتے ہیں۔ لسبیلہ انتظامیہ اس مسئلے پر بات تک کرنے کو تیار نہیں جیسے ان کے نظر میں یہ ایک معمولی مسئلہ ہے۔ طلبا کی زندگیاں دائو پر لگا کر یونیورسٹی انتظامیہ جس بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے اس پر حکومت وقت کو نوٹس لینا چاہئے لیکن ابھی تک حکومت کو شایداس کا علم ہی نہیں۔ آخر کب تک بلوچ طلبا کے ساتھ ایسا ہوتا رہے گا۔
طلبا کی زندگیاں اجیرن ہوچکی ہیں ،احتجاج پر بیٹھے کئی طلباء بے ہوش ہوئے جس سے ان کی حالتغیرہوگئی لیکن مجال ہے کہ کوئی ان کے مطالبات سنے ،کوئی ان سے پوچھے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ جھوٹی ایف آئی آر کراکے خود پھنس گئی ہے چونکہ معاملہ عدلیہ کا ہے انتظامیہ نے طلبا پر جو الزام لگائے ہیں انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا وگرنہ یونیورسٹی انتظامیہ جھوٹی ایف آئی آر کرنے پر خود موردِسزا ٹہر سکتی ہے۔ یونیورسٹی کے انتظامیہ سے بات کرنے پرمحسوس ہوا کہ وہ اس مسئلے سے نکلنے کے لئے درمیانی راستہ ڈھونڈ رہی ہے اس کا ایک واحد حل یہ ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ بلوچستان حکومت کی تعاون سے جوڈیشری سے ایف آئی آر خارج کروادے، اس سے نہ صرف طلباء کا مستقبل محفوظ رہے گا بلکہ کسی حد تک یونیورسٹی کی ساکھ بھی برقرار رہے گی۔
مجھے ایک صحافی دوست کی کال آئی، کہنے لگے عمران خان کی ٹانگوں پر گولی چلانے کا ایک مقصد اسے معذور کرکے نااہل کروانا بھی تو ہوسکتا ہے! اس سوال کا میں نے ہنس کر جواب دیا کہ بھئی معذوروں کا بھی الگ سے کوٹہ مختص ہے۔ عمران خان پر حملے کے بعد سے انہوں نے اپنی شخصیت کو مذاق بنا کر رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ی ہے۔ بے لگام سوشل میڈیا میں اسکی شخصیت کو مختلف طنز یہ طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔ وہ لوگوں کے لئے باقاعدہ ہنسنے ہنسانے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ عمران خان کے حامی صحافی ارشاد بھٹی آج کل ان کے خلاف ہوگئے ہیں بلکہ یوں کہیں کہ وہ سچ کے بول بول رہا ہے جس سے عمران خان کا پلڑا مزید بھاری ہورہا ہے۔
عمرانی کلب میں شامل صحافی ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے ہیں۔ ان میں سے ایک ارشاد بھٹی تھے جنہوں نے اپنا صحافتی ساکھ کو برقرار رکھنے کی خاطر واپس اپنا فیصلہ بدل کر دوبارہ ملک میں تشریف لائے ہیں اور باہر جانے کو ایک ٹریپ کا نام دیکر بری الزام ہوگئے ہیں۔ اب جناب باقاعدہ رپورٹ کارڈ کا حصہ ہے اور انہوں نے اپنا لب و لہجہ بدل دیا ہے۔ عمران خان کے حامی صحافیوں کے پاس دو راستے بچ گئے ہیں یا فیملی سمیت باہر شفٹ ہوجائیں یا اسی ملک میں رہ کر اپنا طرزِ بیانیہ بدل دیں۔ بڑی گہری سوچ بچار کے بعد ارشاد بھٹی نے ملک میں رہ کر اپنا طرزِ بیانیہ بدلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔اس کے پروگرام میں وفاق کی سیاست پر تبصروں کی بوچھاڑ ہوتی رہتی ہے۔ اس کے برعکس بلوچستان کے حالات و سیاست پر اِکا دوکا تبصرہ بھی نظر سے نہیں گزرتا۔ کیا بلوچستان میں ظلم و جارحیت اتنے تکونی ہوگئے ہیں کہ وہ مین اسٹریم میڈیا کی سرخیاں نہ بن سکیں؟ بلوچستان کے تمام سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں۔ تمام پارٹیاںحکومت کا حصہ ہیں اگر نیشنل پارٹی کا صوبائی سطح پر الائنس نہیں لیکن وفاق میں وہ بھی حکومت کے الائنس میں شامل ہے۔ ایک ایسے وقت میں جہاں بلوچستان کی تمام سیاسی پارٹیاںبشمول بلوچ قوم پرست جماعتیں سب حکومت کا حصہ ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی حکومت سے بلوچستان کے جینوئن مسائل کا تذکرہ تک کرے۔
اگر اب بھی بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہوپاتے تو یہ تمام سیاسی جماعتوں کی نااہلی سمجھی جائے گی۔ حق دو تحریک نے دو کام اچھے کئے ہیں اول وہ جو الزام بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں کے سربراہ پر لگا رہے ہیں وہ حقائق پر مبنی ہیں۔ دوسرا سمجھداری کا کام انہوں نے یہ کردیا کہ حق دو تحریک کا سربراہ حسین واڈیلہ کو مقرر کردیاہے۔ لوگوں کا مولانا ہدایت الرحمن کی شخصیت سے ہزار اختلاف ہوگا لیکن سب حسین واڈیلہ کو ایک اچھا لیڈر مانتے ہیں اور کیوں نہ مانیں، ان میں وہ سب صلاحیتیں موجود ہیں اور وہ اپنے قوم کے لئے مسلسل جدوجہد کررہا ہے۔ مولانا ہدایت الرحمن اصل مسائل پر بات کررہے ہیں اس لئے اتنے کم وقت میں وہ لوگوں میں مقبول ہوئے ہیں۔
اگرچہ بعض لوگ اسے اسٹبلشمنٹ کا لانچ کردہ ایک لیڈر تصور کرتے ہیں لیکن گوادر کے عوام اسے اپنی مقدر کا سکندر سمجھتے ہیں اس لئے تو انکے دھرنے میں لاتعداد لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ نے جب عمران خان کو لانچ کرنا تھا تو پہلے انہوں نے یہ کام کردیا کہ سارے ٹی وی چینلز کو پابند کردیا کہ وہ عمران خان کی ہر بات کو مین اسٹریم میڈیا پر بڑی کوریج کے ساتھ نشر کریںجب کہ مولانا ہدایت الرحمن کے کیس میںبالکل الٹ ہے ان پر تاحال میڈیا بلیک آئوٹ نافذ ہے۔ اس سے قطع نظر کہ مولانا ہدایت الرحمن کی پہلی ریلی کو بڑی کوریج ملی تھی لیکن وہ بھی پہلے بین الاقومی میڈیا کے کوریج دینے کے بعد ملکی میڈیا کو ہوش آیا۔ بہرحال لاکھ اختلاف سہی لیکن جو کام اور تحریک عوامی مفادات کے حق میں ہو اسے میڈیا کو کوریج دینا چاہئے۔ ملکی میڈیا کا بلوچستان پر بلیک آئوٹ نافذ ہے اور بلوچستان کے حالات جتنے گھمبیر ہوتے جارہے ان میں مین اسٹریم میڈیا برابر کا قصور وار ہے۔