|

وقتِ اشاعت :   November 16 – 2022

ملک میں اس وقت سیاسی اور عوامی ہیجان کا مرکز فوجی تعیناتی نظر آرہی ہے۔اس حقیقت کے باوجود کہ فوجی سربراہ کا اپنا کردار ہوتا ہے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی جھکائو اکثر انہیں تعینات کرنے والی سیاسی حکومت کے تابع نہیں ہوتا لیکن اس وقت کا سب سے بڑا موضوع نئی آرمی چیف کی تعیناتی ہے ،جسے بحث بنا کر سیاسی تنازعات ابھارے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے نواز شریف کا یہ موقف سامنے آرہا ہے بھیجی گئی سمری میں میرٹ میں جو سب سے سینئر جنرل ہو ،اسے فوج کا سربراہ بنا دیا جائے لیکن تاحال نواز شریف کے اس خیال کوتقویت ملتی نظر نہیںآرہی جبکہ حزب اختلاف کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ حکمران جماعت باالخصوص مسلم لیگ (ن)میں شاید اتفاق رائے نہیں ہے۔ ایک بیانیہ یہ بھی بنایا جارہا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سمری میں تاخیر بھی اسی لیے کی جارہی ہے کہ حکمران جماعت نے ابھی تک اپنا واضح ذہن نہیں بنایا۔ اندرون خانہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک سینئر جنرل کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا جارہا ہے، جس کے بعد نئی سینارٹی کے مطابق سمری حکومت کو ارسال کی جائے گی۔

اور یہ پاک فوج کا سترہواں فوجی سربراہ ہوگا۔ ہمیں تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں اپنی پسند کا فوجی سربراہ لگانا اکثر حکمرانوں کے لیے سودمند نہیں رہا۔اسکندر مرزا کی کوششوں سے بننے والے فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے ہی ا سکندر مرزا کا تختہ الٹا۔ جنرل ایوب خان نے اپنے بااعتماد ساتھی جنرل یحیٰ خان کو فوجی سربراہ تعینات کیا اور جنرل یحییٰ نے ہی ایوب خان کو چلتا کیا اور استعفالے کر حکومت پر قبضہ کرلیا۔اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو نے سینیارٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کو فوج کا سربراہ بنایااور ان کے فرمانبردار جنرل نے نہ صرف انہیں حکومت سے علیحدہ کیا بلکہ دنیا سے بھی رخصتی کا سبب بنے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو یہ سوچ کر تعینات کیاتھا کہ وہ اردو بولنے والے جنرل ہیں ، ان کی پختون اور پنجابی جنرلوں میں لابی نہیں ہوگی اور وہ حکومت کے تابعدار رہیں گے۔ یہ بھی ان کی خام خیالی رہی ،جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو چلتا کیاحالانکہ ایک وقت میں نواز شریف اتنے طاقتور ہوگئے تھے کہ ایک جنرل کو قبل از وقت ریٹائر ہونا پڑاتھا۔ موجودہ تناظر میں اگر میاں نواز کی سوچ کے مطابق ارسال کی گئی سمری سے چنائو کا موقع ملتا ہے تو جنرل سید عاصم منیر جو اس وقت کوارٹر ماسٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہیں، ان کی ریٹائرمنٹ 27نومبر کو ہے جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر کو ریٹائر ہورہے ہیں۔ اندرون خانہ کے مطابق اگر جنرل عاصم منیر کا نام فائنل کرلیا جاتا ہے تو انہیں ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل وائس چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر ترقی دی جاسکتی ہے ،جس کے بعد ان کی ریٹائرمنٹ کی مدت میں توسیع ہوجائے گی اور آرمی چیف بننے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ سینارٹی فہرست میںدوسری پوزیشن پر جنرل ساحرشمشاد مرزا ہیں، جن کے بارے میں قیاس کیا جارہا ہے کہ انہیں چیئرمین جوائنٹ چیفس اسٹاف کمیٹی بنایا جاسکتا ہے۔

اس سینیارٹی فہرست میں آرمی چیف کے لیے سب سے پاپولر جنرل اظہر عباس ہیں ،جو اس وقت چیف آف جنرل اسٹاف ہیں۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے قریبی حلقوں کے مطابق جنرل اظہر عباس چیف آف آرمی کیلئے موزوں سمجھے جارہے ہیں۔ ان کے بعد سینارٹی میں جنرل نعمان محمود راجہ ، جنرل فیض حمید،جنرل محمد عامر ، جنرل محمد چراغ حیدر اور جنرل ندیم احمد انجم ہیں۔ عموماً 5سینئر جنرلوں کے نام ارسال کیے جاتے ہیں لیکن وزیراعظم کو یہ اختیار ہے کہ وہ ارسال کی گئی فہرست سے ہٹ کر بھی کسی سینئر جنرل کو آرمی چیف نامزد کرسکتا ہے۔ پاکستانی فوج کے سربراہوں کے بارے میں اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو 14گست 1947 کو آزادی کے بعد برٹش آرمی انڈیا سے الگ کرکے پاکستان کے لیے رائل پاکستان آرمی تشکیل دی گئی اور فرینک والٹرمیسروی کو کمانڈر اِن چیف مقرر کیا گیا۔ 15گست 1947 سے1951 کے اوائل تک فوج کے سربراہ کا تقرر برٹش آرمی کونسل آف انڈیا کے پاس تھا جو 1904 میں تشکیل دی گئی تھی ،جس پر 1951کے اوائل تک برطانوی جنرل تعینات رہے۔ برٹش آرمی کونسل نے اپنی آخری نامزدگی پہلی مرتبہ ایک پاکستانی آفیسر کی جو اس وقت فل جنرل نہیں تھے ،اس کونسل نے 16جنوری 1951میں جنرل ایوب خان کو کمانڈر اِن چیف مقر رکیا جو سینارٹی میں تیسری پوزیشن پر تھے۔ میجر جنرل اکبر خان اور میجر جنرل رضا ان سے سینئر تھے۔ سکندر مرزا کا تختہ الٹنے کے بعد ایوب خان نے مارشل لاء لگادیا۔ 27 اکتوبر1958 کو جنرل محمد موسیٰ کو کمانڈر اِن چیف مقرر کیا۔(جنرل موسیٰ سینیارٹی میں چوتھے نمبر پر تھے) جبکہ جنرل یحیٰی خان کو ڈپٹی کمانڈر ان چیف مقرر کیا۔جون 1966میں جنرل یحییٰ خان کو کمانڈر اِن چیف مقرر کیا گیا ، وہ اس وقت سینارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے۔ سقوط ڈھاکاکے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے عبوری طور پر جنرل گل حسن کو پاکستان آرمی کا کمانڈر اِن چیف مقرر کیا ، وہ 20 دسمبر 1971 سے 21 جنوری 1972تک اس عہدے پر تعینات رہے۔

بعض اطلاعات کے مطابق ان سے استعفا لیا گیا۔جنرل گل حسن لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان سے جونیئر تھے لیکن3مارچ 1972 کو ذوالفقار علی بھٹو نے کمانڈر اِن چیف کے عہدے کو چیف آف آرمی اسٹاف میں بدل کر جنرل ٹکا خان کو پہلا چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا،جو سینیارٹی میں سب سے سینئر تھے اوراْس وقت پاکستان آرمی کے اکلوتے لیفٹیننٹ جنرل تھے۔ یکم مارچ 1976کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کی فرمانبرداری کو دیکھتے ہوئے سینیارٹی فہرست پر آٹھویں نمبر پر ہونے کے باوجود سات سینئر جنرلوں پر فوقیت دی اور انہیں فوج کا سربراہ مقرر کیا۔ 1977میں بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد جنرل ضیاء الحق کی توسیع ہوتی رہی اور17گست 1988کو طیارے حادثے میں ان کے انتقال کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا جو اس وقت وائس چیف آف آرمی اسٹاف تھے۔ جنرل اسلم بیگ کی مدت ملازمت کے ختم ہونے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم میا ںنواز شریف نے جنرل آصف نواز جنجوعہ کو آرمی چیف مقرر کیا۔ جنرل آصف نواز سنیارٹی لسٹ میں دوسری پوزیشن پر تھے۔ جنوری 1993 میں جنرل آصف نواز کی اچانک رحلت کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف نے جنرل عبدالوحید کاکڑ کو آرمی چیف مقرر کیا۔ یہ سینارٹی میں پانچویں نمبر تھے۔وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے 12جنوری 996میں سب سے سینئرلیفٹیننٹ جنرل جہانگیر کرامت کو آرمی چیف مقرر کیا۔ بعد ازاں وزیراعظم میاں نواز شریف سے اختلافات کے بعد اپنی مدت کی تکمیل سے تین ماہ قبل 7اکتوبر 1998کوانہوں نے استعفیٰ دے دیا، جس کے بعد میاں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کوآرمی چیف مقرر کیا جو سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے۔

اکتوبر میں نواز شریف کے جنرل پرویز مشرف سے اختلافات اپنی انتہا کو پہنچ چکے تھے۔میاں نواز شریف نے پرویز مشرف کے بیرون ملک دورے کے دوران انہیں برطرف کیااور جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف مقرر کرنے کے احکامات جاری کیے لیکن 12اکتوبر 1999کو جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کے احکامات کو رد کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آرمی چیف کی حیثیت سے خود کو برقرار رکھا۔ 28 نومبر 2007 کو چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ چھوڑنے کے بعد پرویز مشرف نے جنرل اشفاق کیانی کو فوج کا سربراہ مقرر کیا۔اشفاق پرویز کیانی سنیارٹی فہرست میں دوسری پوزیشن پر تھے۔یہ وہ واحد جنرل ہیں جنہیں دو حکومتوں نے مدت میں توسیع دی۔انہیں پہلے پرویز مشرف جبکہ دوسری باروزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے توسیع دی۔ 29نومبر 2013کو ایک بار پھر وزیراعظم میاں نواز شریف نے آرمی چیف کا تقرر کیا۔جنرل راحیل شریف کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیاگیا جو سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے۔جنرل راحیل شریف اپنی مدت پر ریٹائر ہوئے۔29نومبر 2016 کو راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف کوپھر تعیناتی کا موقع ملا اور انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو فوج کا سربراہ مقرر کیا۔جنرل قمر جاوید باجوہ سینیارٹی میں چھٹی پوزیشن پر تھے۔ 29نومبر 2018کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ختم ہونے پر اْس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے ان کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کردی ،اس کے لیے ایوان سے ترمیم کرائی گئی، ان کی مدت 29نومبر 2022کو ختم ہورہی ہے اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی مدت پوری ہونے پر عہدہ چھوڑنے کا اعلان کررکھا ہے۔ میاں نواز شریف وہ واحد وزیراعظم ہیں جنہوں نے 5 آرمی چیف مقرر کیے، جن میں جنرل آصف نواز،جنرل عبدالوحید کاکڑ،جنرل پرویز مشرف،جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ شامل ہیں۔

ان کے مقرر کردہ چھٹے آرمی چیف جنرل ضیاء الدین بٹ بھی تھے جنہیںپرویز مشرف نے بننے نہیں دیا۔ اتنے آرمی چیفس مقرر کرنے کے بعد اکثر آرمی چیفس سے نواز شریف کے اختلافات پیدا ہوئے۔ اب جبکہ ان کی حکومت کو چھٹا آرمی چیف مقرر کرنے کا موقع مل رہا ہے تو میاں نواز شریف بہت ہی زیادہ محتاط ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کسی تنازع میں جائے بغیر بھیجی گئی فہرست میں سب سے سینئر کو آرمی چیف مقرر کردیا جائے تاکہ ان پر کسی قسم کا لیبل نہ لگے۔ اب وہ حکومت میں شامل اپنی حلیف جماعتوں کو کس طرح اس امر پر آمادہ کرتے ہیںیہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ماضی کے مقابلے میں اِس وقت آرمی چیف کے تقرر پر سیاست دان اور عوام انتہائی بے چینی سے انتظار کرہے ہیں مگر کچھ قوتیں اس تقررکو متنازع بنانے کی بھی کوششیں کررہی ہیں۔