|

وقتِ اشاعت :   November 22 – 2022

دنیا بھر میں رونماء ہو نے والی مو سمیاتی تبدیلی نے جہاں پاکستان کو متاثرہ کیا وہیں صوبہ بلو چستان کا کوئی ایسا ضلع نہیں جو سیلاب سے متاثرنہیں ہوا ہو،بلو چستان میں پہلے بھی بارشیں ہوتی رہی ہیں لیکن سال 2022 کے ماہ جون میں دنیاء بھر میں رونماء ہو نے والی مو سمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں شروع ہو نے والی شدید بارشوں نے جو تباہی مچائی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ،پاکستان میں طویل عرصے تک ہونے والی تیز بارشوں کے باعث بیشتر علاقے آج بھی سیلاب کی لپیٹ میں ہیں ،بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ 34 اضلاع میں سے زیادہ متاثر ہونے اضلاع میںطوفانی بارش کے ساتھ حفاظتی ڈیم میں شگاف پڑنے سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی جس سے مکانات، باغات ،کھڑی فصلوں ،انفراسٹرکچر کو بری طرح نقصان پہنچا سیلاب اور بارشوں سے ہونے والی تباہی دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہاں پہلے گھر نہیں بلکہ برساتی نالے تھے ۔

حالیہ سیلاب کے بعد آج بھی سیلاب متاثرین بے سروساماں کھلے آسمان تلے زندگی اور موت کی کشمکش مبتلا ہیں اور متاثرہ علاقوں میں بیماریوں نے پنجے گاڑھ رکھے ہیں خوراک اور پانی کی حد تک حکومت اور رضاکاروں کی مدد سے متاثرین جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھے بیٹھے ہیں متاثرین کو دن میں ایک بار سہی لیکن کھانے اور پینے کو مل ہی جاتا ہے ،کیا حکومت کے پاس اتنے وسائل بھی موجود نہیں کہ پانچ ما ہ گزرنے کے باوجود بھی سیلاب متاثرین کی بحالی کا کام مکمل نہیں ہوسکے ۔

حالیہ بارشوں اور سیلا ب سے ہو نے والی تباہ کاریوں کاایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا گیاسیلاب سے متاثرہو نے والے اضلاع کے زیادہ تر لوگ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ ریلیف سے مطمئن نہیں، بلوچستان میں سیلاب نے ڈیموں کو تباہ کرنے کے علاوہ پلوں، گھروں، عمارتوں اور شاہراہوں کو بھی نقصان پہنچایا سیلاب سے مواصلاتی نظام ، بجلی اور گیس کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا جس سے لوگوں کی مشکلات میں مزید ا ضافہ ہوا۔ضلع بولان میں پل ٹوٹنے کی وجہ سے بلوچستان کو ٹرین آپریشن کی معطلی کا سامنا بھی کرنا پڑا،اگرچہ پاکستان پر دستک دینے والی تباہی کی سطح بہت بڑی تھی لیکن اس نے وفاقی اور صوبائی سطح پر بہت سی انتظامی خامیوں سے پردہ اٹھایا ہے،قدرتی آفات کے حوالے سے بلوچستان کو خطرے کے باوجود حالیہ سیلاب نے متعلقہ حکام کے لئے کئی سوالات کھڑے کر دیئے پاکستان کی قومی موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی قبل از وقت انتباہی نظام، انخلاء کے منصوبوں اور حکمت عملیوں کے قیام کی ضرورت کا حوالہ دیتی ہے تاہم این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کی تیاری، متعدد سرکاری ادارے، بشمول جنگلات، آبپاشی اور صحت عامہ سبھی کسی نہ کسی سطح پرغفلت کے ذمہ دار ہیں،حکومت بلو چستان کی جانب سے بلوچستان میں حالیہ سیلاب کے بعد پیدا ہونے والے صورتحال ،بحالی کے اقدامات ۔

متاثرین میں منصفانہ طریقے سے امداد کی تقسیم کا جائزہ لینے کے لئے پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو چھ ماہ میں اپنی رپورٹ مرتب کر کے اسمبلی میں جمع کروائے گی، بلو چستان میں 13جون کے بعد سے اڑھائی ماہ تک جا ری رہنے والی بارشوں اور سیلاب کے باعث اب تک صوبے میں 336اموات کی تصدیق ہو چکی ہے جاں بحق ہو نے والوں میں 149مرد، 80خواتین، 107بچے شامل ہیں جبکہ 187افراد کے زخمی ہو نے کی بھی تصدیق ہوئی ہے شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث صوبے میں 2لاکھ41ہزار 695 مکانات متاثرہوئے ہیں جن میں 1لاکھ 58ہزار 8سو22مکمل طور پر تباہ اور 1لاکھ 25ہزار 8سو37جزوی طوپر متاثرہوئے ہیں۔ صوبے میں 2ہزار 2سو 21کلو میٹر سڑ کیں 54پل4لاکھ 75ہزار7سو 21ایکڑ سے زائد زرعی اراضی ، 24ہزار 4سو 14سولر پینل اور 15سو 38بور بھی تباہ ہو ئے ہیں جبکہ میں سیلاب کے نتیجے میں 4لاکھ 34ہزار4سو 24مو یشی ہلاک ہو نے کی تصدیق ہوئی ہے اور آج بھی مزید نقصانات کا تخمینہ لگا یا جا رہا ہے۔

بلوچستان کی 85 فیصد آبادی کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ زراعت اور گلہ بانی پر منحصر ہے سیلاب نے بڑے پیمانے پر فصلوں کو تباہ کیا جس کی وجہ سے عوام کو معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ، سیلاب اور شدید بارشوں کے دوران سوئی گیس کی طویل بندش، بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیدنگ، کھانے پینے کی اشیاء کی قلت اور موبائل نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے صوبے میں زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو گئی تھی ۔متاثرین کا کہنا ہے کہ سیلاب نے بلو چستان کا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا ہے حکومت کی جانب سے امداد صر ف اور صرف دعووں اور فوٹو سیشن تک محدود ہے ، سیلاب کو آئے پانچ ماہ گزر چکے لیکن تاحال سیلاب کے نتیجے میں تباہ ہو نے والے گھر تعمیر نہیں کرسی ہے سردی کی شدت میںدن بدن اضافے کے ساتھ ہی متاثرین کی مشکلات بھی بڑھتی جارہی ہے اور لوگ مختلف بیماریوں کاشکارہورہے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لئے سوائے سروے کے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ، دوسری جانب حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سیلاب متاثرین کی مددکے لئے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جا رہا ہے اور اب تک ہزاروں خاندانوں کو خیمے اور راشن فراہم کئے گئے ہیں ۔