|

وقتِ اشاعت :   November 22 – 2022

2008 میں سینٹرل جیل تربت میں دوران اسیری جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور بلوچ دانشور مولانا عبدالحق بلوچ (مرحوم)سے ہر دو دن بعد ملاقات ہوتی تھی۔میں اور شہید لالا منیر تربت جیل کی جس کوٹھی میں بند تھے، اْس کے ساتھ والے کمرے میں مولاناعبدالحق بلوچ بھی قید تھے۔تربت انتظامیہ نے مولاناعبدالحق بلوچ کو تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کرکے سینٹرل جیل تربت میں بند کردیا تھا،چونکہ 18 فروری کو الیکشن ہونے والے تھے اور مولانا عبدالحق بلوچ پر الزام یہ تھا کہ وہ الیکشن میں گڑبڑ کرنے اور لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور مولاناعبدالحق بلوچ اس بات پر مسکرائے بھی اور کہا ”اے قوم ء َ پہ ووٹ نہ دئیگء ِ واستا من کجا داشت کناں ”۔(اس قوم کو ووٹ نہ دینے کے لیئے میں کیسے روک سکتا ہوں)۔
سال 2008پاکستان کے طاقتور حکمران جنرل پرویز مشرف کے زوال کا سال تھا ہرعروج کا ایک زوال ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی اْس وقت جنرل پرویز مشرف پورے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ الیکشن میں کوئی مسئلہ ہو۔سینٹرل جیل تربت کی اسیری سے قبل میں مولانا عبدالحق بلوچ کا ایک انٹرویو بھی کرچکا تھا میں اْس وقت جماعت اسلامی کے اخبار روزنامہ ’’جسارت‘‘اورہفت روزہ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘میں معمولی اْجرت پر کام کررہا تھا اور ہر ہفتے ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘میں بلوچستان کے حوالے سے میرا ایک عدد آرٹیکل شائع ہوتا تھا اور یہ بات میرے لیے قابل اعزاز تھا کہ مولانا عبدالحق بلوچ نے مجھے بتایا کہ میں آپ کے آرٹیکل پڑھتا رہتاہوں۔
مولانا عبدالحق بلوچ(مرحوم) 1981 میں جماعت اسلامی میں شامل ہوئے اور 1985 کے غیرجماعتی انتخابات میں وہ تربت سے قومی اور صوبائی اسمبلی دونوں کی نشستوں پر کامیاب ہوگئے۔
نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد بی ایس او نے تربت میں ایک سمینار منعقد کرایا تھا اْس سیمینار میں مولانا عبدالحق بلوچ نے تاریخی خطاب کیا، سمینار سے قبل بی ایس او کے کچھ دوستوں نے اعتراض کیا کہ مولانا عبدالحق بلوچ کا تعلق چونکہ جماعت اسلامی سے ہے اور وہ کبھی بھی بی ایس او کے سیمینار میں آکر بلوچستان اور بلوچ کے حق میں تقریر نہیں کرینگے لیکن مولانا عبدالحق بلوچ کو جب دعوت دیا گیا تو وہ فورا پہنچ گئے۔مولانا عبدالحق بلوچ کو انگریزی زبان پر کافی دسترس حاصل تھا میرے ساتھ مقید ایرانی شہری سمیر ریکی چونکہ ڈان اخبار پڑھتاتھا اخبار پڑھنے کے بعد سمیر ریکی اْسے مولاناعبدالحق بلوچ کے بیرک میں پہنچا دیتا تھا۔
سمیر ریکی ایران کا شہری تھا اور اْس کا تعلق (اْس کے مطابق) ایران کے کسی مسلح مذہبی تنظیم سے تھا،وہ حافظ قرآن تھا اور صحیح مسلم بخاری گویا اْس کو حروف تہجی کی طرح یاد تھا اور ہر بات پر قرآن اور حدیث کا حوالہ دیتا تھا اور سینٹرل جیل تربت کے بہت سے قیدی جو صبح دیر سے اْٹھنے کے عادی تھے صرف سمیر کی آواز میں قرآن شریف کو سْننے کے لیے صبح سویرے نماز فجر میں صف باندھ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔
سمیر دینی اور اسلامی علوم سے لیکر سیاست تک غضب کی معلومات رکھتا تھا،مجھ سے کہا کہ میں مولانا عبدالحق بلوچ سے ملنا چاہتا ہوں اور دوسرے دن انہوں نے مولانا عبدالحق بلوچ سے ملاقات کی۔ شام کو بیرک بند ہونے سے قبل واپس اپنے بیرک میں جاتے ہوئے سمیر مجھے بتانے لگا کہ مولانا عبدالحق بلوچ دینی،اسلامی اور قوم پرستانہ سوچ اور فکر پر مبنی ایک جامع کتاب ہے اور آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ مولانا عبدالحق بلوچ جیسی شخصیت بلوچستان میں موجود ہے اور یہ آپ لوگوں کی بدقسمتی ہے کہ وہ جیل میں بند ہے اور باہر اْس کے لیے کوئی آواز نہیں اْٹھا رہا ہے۔
مولانا عبدالحق بلوچ انتہائی زیرک انسان تھے اور نرم لہجے میں گفتگو کرتے تھے نواب اکبرخان بگٹی سمیت تمام قوم پرست بلوچ رہنماؤں کے بارے میں اْس کے خیالات انتہائی دوستانہ تھے۔ بلوچستان کے حوالے جب بھی بات کرتے تو یوں لگتا کسی قوم پرست جماعت کا رہنما آپ کے سامنے بیٹھا ہواہے۔بلوچ روایات سے سرشار مولانا عبدالحق بلوچ کے سامنے بیٹھ کر بس یہ تمنا ہوتی تھی کہ وہ سامنے بیٹھ کر گفتگو کرتے رہیں اور سْننے والا اْس کو سنتا رہے۔زبان میں کیا شائستگی تھی،اگر اختلاف بھی رکھتے تو دلائل کے ساتھ نرم لہجے میں جواب دیتے۔
بلوچستان میں چلنے والی شورش کے حوالے سے میں نے اْس کو کافی کْریدا،گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا ” بلوچ نوجوانوں کو جذبات سے ہٹ کر کچھ کرنے کی ضرورت ہے جذباتی نعروں کے پیچھے دوڑ کر بلوچ قوم نے ہمیشہ نقصان اْٹھایا ہے ،مولانا عبدالحق بلوچ (مرحوم) کی کمی کو اْس کی جماعت کے ساتھ ساتھ عام بلوچ حلقے بھی انتہائی شدت سے محسوس کرتے ہیں اور موجودہ وقت میں اگر وہ زندہ ہوتے تو یقینا اپنے ہر مخالف کے اختلافات کا جواب نرم لہجے اور شائستگی کے ساتھ مسکراکر دیتے کیونکہ وہ مکمل طور پر ایک عالم دین تھے۔