|

وقتِ اشاعت :   December 4 – 2022

ملک میں عام انتخابات کے حوالے سے پی ٹی آئی کی جانب سے اب تک اسمبلیاں تحلیل کرنے کی روز نئی تاریخ کا اعلان کیاجارہا ہے بالکل لانگ مارچ اور دھرنے کی طرح جو اسلام آباد میں پہنچ کر استعفیٰ لینے کے لیے تھا مگر راولپنڈی پہنچ کر استعفیٰ لینے کی بجائے دینے کا اعلان کرکے نکل گئے جیسے کہ پہلے انہی ادارتی صفحات میں یہ تجزیہ کیا گیا تھاکہ عمران خان تاریخ اور دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی اپنائینگے تاکہ پارٹی اور اپنے کارکنان کو مصروف رکھ سکیں کیونکہ عمران خان کے پاس اب سیاسی بیانیہ بنانے کے لیے کوئی اور چیز رہ نہیں گئی ہے۔ سائفر، امریکی سازش، اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ہر بیانیہ دم توڑگیا ہے لہٰذا سیاسی حوالے سے زندہ رہنے کے لیے اب کچھ تو کرنا ہوگا لہٰذا الیکشن کی تاریخ پر کھیلتے رہینگے جبکہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے امکانات بالکل کم ہیں کیونکہ وقت ویسے بھی کم رہ گیا ہے ،ایک سال یا چھ سات ماہ کا دورانیہ بھی رکھا جائے توپی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو فائدہ ہوگا اسمبلیاں چھوڑنے سے انہیں سیاسی خسارہ کا سامنا کرناپڑے گا ،آخری دنوں میں ہر رکن اسمبلی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے حلقے میں زیادہ سے زیادہ کام کرکے عام انتخابات میں اپنی پوزیشن مضبوط کرے کیوںکہ عوام کے پاس انقلابی چورن فروخت نہیں ہوگا کچھ دے کر ہی عوام سے کچھ لیاجائے گا ۔

اور اس کے ساتھ ہی عمران خان خود کے پی کے اور پنجاب حکومت کے وسائل سے بہت زیادہ مستفید ہورہے ہیں، کیسے وہ اسمبلیاں تحلیل کرینگے ،دونوں صوبائی حکومتوں نے عمران خان کے جلسوں، مارچ سمیت دیگر وسائل کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول کر رکھ دیئے ہیں جب اسمبلیاں تحلیل ہوجائینگی تو عمران خان مستفید نہیں ہونگے اور یہ بات عمران خان خود بھی جانتے ہیں کہ وفاقی حکومت ان کے دباؤ میں نہیں آئے گی اور نہ ہی ان کے کہنے پر عام انتخابات کا اعلان کرے گی ،اب تو پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی گزشتہ روز کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران یہ اشارہ دیا کہ عام انتخابات کی تاریخ میں ایک سال مزید توسیع کرسکتے ہیں جس سے وفاق کے موڈ کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ وفاقی حکومت میں شامل جماعتیں فی الوقت عام انتخابات کرانے کے لیے کسی صورت تیار نہیں۔ بہرحال گزشتہ روز عمران خان نے کہاکہ اگر حکومت جنرل الیکشن کی تاریخ دینا چاہتی ہے تو ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں، ملک کی ضرورت ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام آئے، سیاسی استحکام آئے گا تب ہی معاشی استحکام آئیگا۔انہوں نے کہا کہ پرویز الٰہی نے مجھے اسمبلی توڑنے کا اختیار دے دیا ہے، ہم اسی ماہ صوبائی اسمبلیاں توڑیں گے اور الیکشن کی طرف جائیں گے، ہمارے ارکان الیکشن کی تیاری کریں، عنقریب اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کردیں گے، الیکشن اب ملک کی ضرورت ہیں، پی ٹی آئی کی ضرورت نہیں، الیکشن میں تاخیر بھی ہوتی ہے تو ہمیں تو فائدہ ہی فائدہ ہے۔

عمران خان کے الیکشن میں تاخیر پر فائدہ کی بات سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ عمران خان کو اپنے اراکین کے اندرون خانہ تمام معاملات کا علم ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ عمران خان جس پنجاب کی اسمبلی پر فخر کرتے دکھائی دیتے ہیں اور بڑے صوبے میں اپنی حکومت کی جیت کا حوالہ دیتے ہیں، اس جوش کوہوش میں لانے کے لیے مونس الہٰی نے ساری باتیں کہہ ڈالیں۔ گزشتہ چند ماہ سے سب اس بات پر حیران تھے کہ چوہدری برادران کس طرح سے عمرانی انقلابی بیانیہ کے حامی بن گئے اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ جس جنرل باجوہ کے خلاف عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر قائدین زہریلا پروپیگنڈہ کررہے ہیں اسی جنرل باجوہ کے کہنے پر چوہدری پرویزالہٰی اور اس کے صاحبزادے مونسی الہٰی نے اپنے خاندان کے ساتھ تعلقات خراب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا ۔مونس الہٰی نے یہ انکشاف کیا کہ ہمیں جنرل باجوہ نے کہاتھا کہ پنجاب حکومت بنانے کے لیے پی ٹی آئی کا ساتھ دیں اور اب ان کے خلاف محاذ کھول دیا گیا ہے ۔بہرحال سوالات دونوں طرف سے بہت بنتے ہیں مگر افسوس کہ عمران خان اب بھی گمراہ کن پروپیگنڈہ اور بیانیہ پر ڈٹ کر کس طرح کی دوغلی پالیسی پر گامزن ہیں ۔لہذا اب ذرا سیاسی اقدار کا خیال رکھتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین اور دیگر قائدین جنرل باجوہ کے خلاف مہم چلانے کی بجائے ان کی قصیدہ گوئی دوبارہ شروع کردیں کیونکہ یوٹرن لینا بقول عمران خان کے کوئی غلط بات نہیں تو یہاں بھی یوٹرن لے کراحسان کا قرض چکا دیں۔