|

وقتِ اشاعت :   December 7 – 2022

بلوچستان پاکستان کا وہ حصہ ہے جو نہ صرف رقبے کے لحاظ سب سے بڑا صوبہ ہے بلکہ معدنی دولت اور جغرافیائی محل و قوع کے حوالے سے بھی باقی ماندہ پاکستان پر فوقیت رکھتا ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بلوچستان ہی سب کچھ ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بلوچستان کی حقیقی پوزیشن و اہمیت یہ ہے تو بلوچستان تعمیر و ترقی کی منزلیں اور خوشحالی کے حوالے سے سب سے آگے ہونا چاہیے تھا۔لیکن ایسا کچھ نہیں بلوچستان کے لیے سب کچھ الٹا ہے۔دنیا میں ایک محاورہ بڑی شدت سے استعمال ہوتا ہے کہ امیر کے لیے الگ قانون اور غریب کے لیے الگ،بلوچستان کے لیے آئین اور قانون کے صفحے گرہن کی مانند ہیں۔
بلوچستان کا ایک علاقہ ہے سوئی،جہاں 1950میں گیس دریافت ہوئی اوراس گیس کو علاقے کے نام سے منسوب کیا گیا، یعنی سوئی گیس۔سوئی گیس چھ تا سات دہائیوں سے پورے ملک میں گیس فراہم کررہی ہے سوائے خود سوئی اور ڈیرہ بگٹی اور بلوچستان کے دیگر علاقوں کے۔کوئٹہ جو صوبے کا دارلحکومت ہے یہاں بھی 1985 میں گیس کی سہولت دستیاب ہوئی اور اس کی اولین وجہ کوئٹہ کینٹ کا ہونا ہے۔سوئی گیس فیلڈ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) نامی کمپنی چلاتی ہے، اور اس کا ہیڈ کوارٹر نہ سوئی میں ہے اور نہ بلوچستان میں بلکہ کراچی میں ہے،جس میں شاید ہی بلوچستان کا کوئی نمائندہ ہو۔سوئی میں دو طرح کی زندگی نظر آتی ہے۔ ایک سوئی کے اصل وارثوں کی،جو تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جہاں بجلی، گیس، تعلیم و صحت کی سہولیات کا نہ ہوناسرفہرست ہے،سوئی کے عوام لاچارگی و پسماندگی کی انتہا پر ہیں۔جبکہ دوسری طرف پی پی ایل اورسکیورٹی فورسز جنہیں بجلی، گیس اور پانی کی بلا تعطل فراہمی، معیاری تعلیم اور صحت کی اعلیٰ سہولیات دستیاب ہیں۔
سیندک بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے سیندک میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر ہیں۔ اس منصوبے کا باقاعدہ آغاز 1990ء میں ہوا تھا، اس کے لیے ایک چینی کمپنی کوسیندک پروجیکٹ کان کی کھدائی، دھات کی صفائی کے کارخانے، بجلی، پانی کی فراہمی اور رہائشی کالونی کی تعمیر کی ذمہ داری دی گئی لیکن سیندک سے مکمل بلوچستان تو کجا چاغی کے عوام بھی مستفید نہیں ہوسکے۔ سکول، ہسپتال اور نہ ہی پانی میسرہے۔چند افرا دکو کلاس فور میں ملازمت دی گئی لیکن بڑی اور بااختیار ملازمتیں بلوچستان سے باہر کے لوگوں کے پاس ہیں۔بالکل اسی طرع ریکوڈک بھی چاغی میں واقع ہے،جہاں دنیا کے مثالی و عظیم سونے اور تانبے کی ذخائر موجود ہیں جن کی مالیت کئی سو ارب ڈالر ہے لیکن ریکوڈک سے بھی چاغی اور بلوچستان کو کچھ حاصل نہیں۔مسلم لیگ ن کی حکومت نے 1998میں چاغی میں ایٹمی دھماکے کیے اور ملک کو ایٹمی طاقت بنا دیا اور چاغی کو ہیروشیماوناگاساگی جیسا علاقہ بنا دیا۔تابکاری کے اثرات نے عوام میں مختلف بیماریاں منتقل کیں اور زمین کو بھی مکمل متاثر کردیاجہاں کاشت کاری کی شرح انتہائی کم ہوچکی ہے اور یہ اس وقت ہوا جب ملک میں جمہوری حکومت مسلم لیگ کی تھی اور بلوچستان میں قوم پرست جماعت کی تھی۔
بلوچستان جس کے پاس قریباً 800کلومیڑ سا حل سمندر ہے اور گوادر جو مکران ریجن میں آتا ہے گودار کا ساحل وسیع اور گہرا ہے۔گودار کے ساحل کا پانی گرم ہے جو تجارتی لحاظ سے مکمل موزوں و لاجواب ہے۔گودار بندرگاہ کو جیوسٹریٹجک پوزیشن حاصل ہے۔پاکستان اور چین کے درمیان وسیع و خطیر ڈالرز کا معاہدہ ہوا اورا س کو پاک چائنہ کوری ڈور (سی پیک) کا نام دیا گیا۔چین نے اس سلسلے میں اربوں ڈالرز کا اجراء بھی کیا جو کمیونیکیشن (روڈز) اور توانائی کے شعبوں میں خرچ کیے گئے لیکن بلوچستان تو دور کی بات،گوادر میں ایک پائی بھی خرچ نہیں ہوا بلکہ سی پیک نے گوادر کے لوگوں کا روزگار اور آزادی بھی چھین لی ہے۔گودار کے عوام کا روزگار ماہی گیری سے منسلک ہے لیکن سی پیک نے ماہی گیروں کی رسائی سمندر تک سے روک لی ہے۔ان کو معاش کے حصول کے لیے تنگ کیا جاتا ہے۔دوسری طرف غیر قانونی ٹرالنگ اور مچھلی کے شکار سے سمندری حیات کی نسل کشی ہورہی ہے۔سیکورٹی فورسز گودار کے عوام کو روک کر پوچھتے ہیں کہ کہاں سے آرہے ہو کہاں جارہے ہو۔جس سے عوام شدید اضطراب کا شکار ہوتے ہیں۔گودار میں پانی میسر نہیں،سی پیک بھی سوئی گیس سیندک و ریکوڈک کی طرح ملک کے ہر جگہ کو فائدہ پہنچا چکا سوائے حقیقی مالک کو۔
بلوچستان بجلی کی پیدوار میں بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالتاہے۔اور اس میں مزید بھی کارآمد ہوتا جب ڈیموں کی تعداد میں اضافہ ہوتا اور اس سے بھی زیادہ اگر بلوچستان میں سورج کی تپش کو بجلی کے ذرائع کے لیے استعمال کیا جاتا۔بلوچستان میں بجلی کی پیداوار خود کی ضرورت سے زائد ہے لیکن بلوچستان کو کم بجلی مل رہی ہے اور باقی ماندہ بجلی ملک کے دیگر حصوں کو فراہم کیا جارہا ہے جس سے نہ صرف بلوچستان کی حق تلفی ہورہے بلکہ زراعت کی پیداوار میں مشکلات کا سبب ہے جس سے صوبے کی معیشت میں کمی اور غربت کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
آج بھی بلوچستان میں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے۔بیروزگاری عروج پر ہے۔معیاری تعلیم کا فقدان اور صحت کی سہولیات میسر نہیں۔بلوچستان کو اپنانے کی ضرورت ہے۔بلوچ کو بحیثیت قوم تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔اور بلوچ کے وسائل پر پہلا حق بلوچ قوم کا ہے۔بلوچستان میں موجود مایوسی کا خاتمہ اسی سے ممکن ہے۔