ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کا قدیم علاقہ لیاری فٹبال سے لگائو کی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے۔ 1930ء سے اس زرخیز زمین نے عالمی سطح کے فٹبالرز پیداکئے جنہوں نے قیام پاکستان سے قبل عالمی سطح پر اپنے شاندار کھیل کے ذریعے اپنا لوہا منوایا۔
ہندوستان میں لیاری گل محمد لائن کے کیپٹن عمر کا چرچا بہت زیادہ تھا اور ہندوستان کی کمپنیوں کی اشتہارات پر اس وقت کیپٹن عمر کی تصاویر لگتی تھیں جبکہ لیجنڈ انڈین اداکار یوسف خان(دلیپ کمار) کیپٹن عمر کے بہت بڑے مدح تھے اور ان کے فٹبال کھیلنے سے بہت زیادہ متاثر تھے، متعدد ملاقاتیں بھی وہ کیپٹن عمرسے کرچکے تھے ،ریکارڈ دستاویزات آج بھی ہندوستان میں موجود ہیں۔
ہندوستان کی ایک کمپنی کی ماچس پر کیپٹن عمر کی تصویر بہت زیادہ مقبول ہوگئی تھی۔پاکستان میں فٹبال کھیلنے کے لیے اتنی رقم نہیں ملتی تھی ڈھاکہ کلب میں فٹبال کھیلنے والے کھلاڑیوں کو خطیر رقم دی جاتی تھی ،اس میں لیاری کے مایہ ناز فٹبالرز کی تعداد زیادہ تھی جو اس ٹیم کا حصہ تھے جس کی فہرست طویل ہے۔لیاری کے بزرگ کھلاڑی اپنے پرانے دور کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ترکش ٹیم ایک بار پاکستان فٹبال کھیلنے آئی تھی تو قومی ٹیم کو ترکی نے شکست دیدی تھی ،لگ بھگ یہ 1960ء کی بات ہے جب یہی ترکش ٹیم کراچی آئی تو کے ایم سی اسٹیڈیم میں پریکٹس میچ کھیلنے کے لیے لیاری کے انٹرنیشنل فٹبالرز نے آفیشلز کے ساتھ بات کی تو انہوں نے اس کی حامی بھر لی اور کے ایم سی اسٹیڈیم میں یہ میچ کھیلا گیا ۔
کہاجاتا ہے جس میں لیاری کے اس وقت کے مایہ ناز فٹبالر زترکش ٹیم کے مدمقابل میدان میں اترتے ہیں پہلے ہاف کے آغاز میں ہی ترکش ٹیم کو دو گول اسکور کرتے ہیں جس پر باقاعدہ ترکش کوچ میچ کو رکوادیتے ہیں اور یہ معلومات لیتے ہیں کہ جس قومی ٹیم کو ہماری ٹیم نے شکست دی تھی وہ قومی ٹیم تھی یا یہ اصل ٹیم ہے۔پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان باقاعدہ سہ ملکی سیریز فٹبال کے ہوا کرتے تھے جس میں پاکستان کی ٹیم ان پر سواسیر تھی جس کی وجہ لیاری کے ہی فٹبالرز تھے ۔ بہرحال تاریخ اس کی گواہ ہے کہ لیاری جسے منی برازیل کہاجاتا ہے پاکستان بننے سے قبل سے لے کر آج تک عالمی سطح کے فٹبالرز پیدا کرچکا ہے مگر بدقسمتی سے فٹبال کو ریاستی سطح پر مکمل طور پر ترجیح نہیں دی گئی جس کی وجہ سے پاکستان نے ورلڈ کپ کے لیے کبھی بھی کوالیفائی نہیں کیا حالانکہ عالمی سطح کے کھلاڑی یہاں موجود ہیں جس کی چند مثالیں اوپر دی گئی ہیں ۔
دنیا میں فٹبال کو کھیلوں کا بادشاہ کہاجاتا ہے ،پاکستان میں اسے نظرانداز کرکے سفارشی کلچر کے ذریعے سلیکشن بورڈ اور ٹیم تشکیل دی جاتی ہے اس سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ فٹبال کے تمام محکموںکو ختم کردیا گیا جس کی وجہ سے یہاں فٹبال مزید زوال کی جانب گامزن ہے ۔ کراچی کے ،کے ایم سی اسٹیڈیم میں جب فٹبال میچوں کے ایونٹ ہوتے تھے تو اسٹیڈیم میںاتنا جم غفیر ہوتا تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی، اب یہ اسٹیڈیم ویران پڑا ہے کوئی پرسان حال نہیں۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے لیاری کے فٹبال کے جنون کو بہت قریب سے دیکھا ۔
انہوں نے لیاری والوں کو عالمی سطح کا گراؤنڈ پیپلزپلے انٹرنیشنل اسٹیڈیم تعمیر کیا جو کسی زما نے میں گنجی گراؤنڈ کے نام سے مشہور تھا۔ اب موجودہ فیفا ورلڈ کپ کے دوران ایک بار پھر لیاری میڈیا کا مرکز بنا ہوا ہے ،ملکی وعالمی میڈیا باقاعدہ اسے رپورٹ کررہی ہے کہ لیاری میں اس وقت جشن کاسماں ہے، فٹبال کے بڑے بڑے اسکرین 20سے زائد مقامات پر لگے ہوئے ہیں جبکہ لیاری کے علاقے گل محمدلائن مولوی عثمان پارک میں بہت بڑی اسکرین پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے لگائی گئی ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں شائقین فٹبال میچ دیکھنے کے لیے آتے ہیں خاص کر برازیل کا میچ ہوتا ہے توگراؤنڈمیں میچ دیکھنے والوںکا تانتا بندھ جاتا ہے اور وہاںبیٹھنے کے لیے جگہ تک نہیں ملتی۔ یہ جنون 1930ء سے لے کر آج تک اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ لیاری والوں کے ساتھ فٹبال کی وجہ سے زیادتیاں کی گئیں مگر فٹبال کے ساتھ لگاؤ کو ختم نہیں کیا جاسکا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت دیگر صوبائی وزراء اب تک لیاری میں آکر بڑی اسکرین پر شائقین فٹبال کے درمیان میچ دیکھتے ہیں ۔کیا اب پاکستان پیپلزپارٹی سندھ میں خاص کر لیاری والوں کو یہ تحفہ دے گی کہ جو محکمے فٹبال کے بندش کا شکار ہیں انہیں بحال کرکے انہیں بہت بڑا سرپرائز دے گی ۔ لیاری کے فٹبالرز اور شائقین کا صرف ایک شکوہ ہے کہ فٹبال کے کھیل کو قومی سطح پر حکومت ترجیح دے اور میرٹ پرپاکستان فٹبال فیڈریشن کا چناؤ اور قومی فٹبال ٹیم کی تشکیل یقینی بنائے، اس کے لیے بیرون ملک سے بہترین کوچز بلائے جائیں تاکہ وہ کھلاڑیوں کا چناؤ کریںاورانہیں ٹریننگ دیں، پھر پاکستان بھی فیفا ورلڈ کپ میں ضرورت شرکت کرے گا مگر یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب فٹبال کے لیے ماحول کو سازگار بنانے کے لیے سب سے پہلے فٹبال محکموں کو بحال کیاجائے جس سے کھلاڑیوں کا روزگار وابستہ ہے، محکموں کی بندش سے آج بڑے بڑے نامور فٹبالر کم اجرت پرمزدوری کرنے پر مجبور ہیں،ان کے گھروں میںفاقے ہیں۔
اس کا ازالہ پیپلزپارٹی کی خاص ذمہ داری بنتی ہے کیونکہ لیاری پیپلزپارٹی کا دوسرا گڑھ ہے ،شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے انٹرنیشنل اسٹیڈیم دیا ،امید ہے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سندھ میں فٹبال محکموں کو بحال کرکے لیاری کے ہونہار کھلاڑیوں کو ایک بار پھر فٹبال کے میدان میں اتارنے کے لیے کردار ادا کریں گے۔ اگر پیپلزپارٹی نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تو ایک بات یقینی ہے پیپلزپارٹی لیاری والوں کے سرکا تاج بن جائے گی اور ایک بڑی تاریخ بھی رقم ہوگی کیونکہ پیپلزپارٹی جوکم مارجن سے ووٹ لیکر کامیاب ہورہی ہے پھر پرانی تاریخ تازہ ہوجائے گی جس طرح ماضی میں لاکھوں ووٹ لیکر پیپلزپارٹی لیاری میں ناقابل شکست جماعت بنی ہوئی تھی۔ بہرحال لیاری میں اس وقت فیفا میلہ سجا ہوا ہے صرف اسکرین پر میچز نہیں کھیلے جارہے بلکہ گانے بجانے، پینٹنگ، لیوا رقص سمیت مختلف طریقوںسے اپنی فیورٹ ٹیموں کو گلی محلوں میں سپورٹ کرنے کے لیے انوکھے انداز میں محبت کا اظہار بھی کیاجارہا ہے۔