|

وقتِ اشاعت :   December 14 – 2022

بالآخر حکومت نے مشکل فیصلہ کر ہی لیا۔ حکومت کی طرف سے دانستہ یا نادانستہ طور پر کیا گیا ریکوڈک خفیہ معاہدہ حکومت کے گلے پڑگئی ہے۔ سینٹ اراکین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر سینیٹ کو بلڈوز کرکے ریکوڈک قانون ساز بل منظور کروایاگیا۔ جے یو آئی اوربی این پی کو اعتماد میں لئے بغیر حکومت نے یہ اہم قانون سازی کی ہے۔ اس اہم قانون سازی کے بعد سے ایک سیاسی ہلچل شروع ہوگئی ہے۔ اخترمینگل نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت نے ہمیں اعتماد میں لینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اخترمینگل نے مزید کہا کہ وہ حکومت سے علیحدگی پر غور کریں گے یعنی ملک میں سیاسی عدم استحکام آسکتا ہے۔

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ہی کہہ دیا تھا کہ ایک گہرے منصوبے کے تحت اخترمینگل کی سیاسی ساکھ کو ختم کیا جارہا ہے۔ اسے لاپتہ افراد کمیشن کا سربراہ مقرر کرکے اس کے سیاسی بیانیہ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اداروں کا عمل کافی موثرثابت ہوا ہے۔ ریکوڈک معاہدے پر اخترمینگل کے پاس ایک نیا سیاسی بیانیہ تیار کرنے کا موقع ہاتھ آگیا ہے۔ قانون سازی کے بعد ہی سے اخترمینگل نے عبدالقدوس بزنجو کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لے لیا ہے حالانکہ بلوچستان حکومت بھی انہی کی مہربانی سے قائم ہوسکی ہے۔ سینٹر کامران مرتضیٰ نے پارلیمان کو یتیم خانہ قرار دیا ہے۔ سینئر سیاست دان اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے ریکوڈک قانون کی نہ صرف مخالفت کی ہے بلکہ اسمبلی میں اس قانون کے کاغذات کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کردیئے۔
18 ویں ترمیم لانے اور ترتیب و ترویج دینے میں رضاربانی کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ وہ ایک سینئر سیاستدان ہیں چیزوں کو باریک بینی سے دیکھتے ہیں۔ اس کا بل کے کاغذات کو پھاڑ کر پھینکنا کوئی غیر معمولی عمل نہیں ہے۔ اس لیے بھی کہ وہ ایک سینئر سیاست دان اور سینٹر ہیں جس کو اعتماد میں لیئے بغیر، بل کو ایجنڈے میں شامل کئے بغیر پارلیمان کو بلڈوز کرکے پاس کروایا گیا ہے۔ اخترمینگل اگر واقعی اپنی سیاسی ساکھ کو بچانا چاہتے ہیں اور عوام کے لیے دردِ دل رکھتے ہیں تو وہ حکومت سے ریکوڈک خفیہ معاہدے کے خلاف سخت احتجاج کریں گے۔ ضرورت پڑنے پر حکومت سے علیحدگی اختیار کریں گے۔ اس صورت میں اگر وہ کوئی سخت اقدام نہیں اٹھاتے تو یہ بی این پی کی سیاسی موت ثابت ہوگی۔
اخترمینگل اگر جے یو آئی کو یقین دلائے کہ وہ بلوچستان میں عدم اعتماد لانے میں ان کا ساتھ دیں گے تو وہ اس معاملے پر ضرور اخترمینگل کے ساتھ موثر آواز بلند کریں گے۔ چونکہ اخترمینگل اگر چاہیں تو بلوچستان حکومت کو فارغ کیا جاسکتا ہے۔ اخترمینگل عدم اعتماد کے بعد معمول کی طرح حکومت جے یو آئی یعنی اسلم رئیسانی کو سونپ دیں۔
آئندہ دنوں سیاسی صورتحال میں ہوش ربا اقدامات ہوتے نظر آئیں گے، اخترمینگل کو اگر حکومت مطمئن نہیں کر سکتی تو اختر مینگل کے آئندہ کے لائحہ عمل حکومت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ حکومت دو پیروں پر کھڑی ہے اگر اخترمینگل علیحدگی اختیار کرتے ہیں جو بمشکل اسے کرنے دیں گے۔تاہم اگر علیحدگی اختیار کریں گے تو وفاق کی سیاست پر ایک ہلچل سی مچ جائے گی جس کا سیاسی فائدہ عمران خان کو ہوگا۔