|

وقتِ اشاعت :   December 19 – 2022

ملک میں سیاسی ہلچل میں شدت آتی جارہی ہے ۔پنجاب میں اسمبلی تحلیل کرنے کا معاملہ بھی فی الوقت کٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے چوہدری برادران دبے لفظوں میں بہت سارے اشارے اور پیغامات عمران خان کو دے رہے ہیں کہ وہ اسمبلی تحلیل کرنے کے موڈ میں نہیں، جس طرح پنجاب کے وزیراعلیٰ پرویز الہٰی نے گزشتہ روز دوٹوک انداز میں عمران خان کو بتایا کہ سابق آرمی چیف (ر) جنرل قمرجاوید باجوہ میرے اورپی ٹی آئی کے محسن ہیں ان کے خلاف بات کسی صورت برداشت نہیں کرونگا، اگر دوبارہ بات کی گئی۔

تو سب سے پہلے میں جواب دونگا اور میری پارٹی بھی کھل کر سامنے آئے گی۔ انہوں نے عمران خان کے محسن سابق ڈی جی آئی ایس آئی (ر) جنرل حمید فیض کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہاکہ انہوں نے ہمارے ساتھ بہت زیادتی کی ،ہمارے خلاف کیسز بنائے اور ہمیں بندکرنے کی کوشش کی جس پر جنرل (ر) قمرجاوید باوجوہ نے ان کی ٹکائی لگائی۔ بہرحال ٹکائی لگائی کہ نہیں یہ بات چوہدری پرویزالہٰی صاحب اور ان کے صاحبزادے مونس الہٰی ہی بہتر جانتے ہیں کیونکہ اندرون خانہ انہی کے زیادہ رابطے تھے بقول ان کے پنجاب میں پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کے لیے بھی سابق آرمی چیف نے کہا تھا اس لیے ہم نے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چوہدری برادران جس کے کہنے پر پنجاب میں پی ٹی آئی کے ساتھ گئے وہ عمران خان کے فیصلے پرعین وقت مکر جائیں اور برملا اس بات کا اظہار کریں کہ یہ سابق آرمی چیف کی امانت تھی لہٰذا ہم پی ٹی آئی کے پابند نہیں، کچھ بھی ہوسکتا ہے چونکہ چوہدری پرویزالہٰی نے جس طرح پی ڈی ایم کے ساتھ اہم موڑ پر ہاتھ کیا تو کیا وہ عمران خان کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے ؟ ویسے بھی گزشتہ روز انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے نواز شریف اور مریم نواز کی تعریفوں کے پُل باندھے کہ وہ بہترین سیاستدان اور دوراندیش ہیں جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری کی بھی تعریف کی کہ انہوں نے ڈپٹی وزیراعظم مجھے بنایا ۔ان حوالہ جات سے نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ چوہدری برادران اندرونی لڑائی ختم کرکے پی ڈی ایم کے ساتھ جابھی سکتے ہیں اور پی ٹی آئی اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد بھی سب کچھ ہار جائے گی کیونکہ چند سیٹوں پر ق لیگ نے بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنے گرد گھماکر رکھ دیا ہے۔

یہ کہاجاسکتا ہے کہ چوہدری برادران پنجاب جیسے بڑے صوبے میں حکمران اورمرکز میں بھی شراکت دار بنے ہوئے ہیں۔ بہرحال سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی یہ باور نہیں کہ چوہدری پرویزالہٰی ان کے ساتھ ہیں یا نہیں۔ گزشتہ روز عمران خان نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ق لیگ اور پی ٹی آئی دوالگ سیاسی جماعتیں ہیں، ق لیگ کی جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے اپنی پالیسی ہے لیکن پی ٹی آئی یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ حالات کے ذمہ دار باجوہ ہیں۔پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھاکہ پرویزالٰہی نے لکھ کر مجھے اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دے دی ہے اور جمعہ کو یہ ایڈوائس گورنر کو بھجوادی جائے گی جبکہ ق لیگ آزاد جماعت ہے، ن سے مذاکرات کرسکتی ہے۔عمران خان نے جس طرح سے ق لیگ کو آزاد جماعت قرار دیکر مذاکرات کی بات کی ہے تو انہوں نے مستقبل میں مزید اپنے آپ کو سیاسی رسوائی سے بچانے کے لیے یہ بات کہہ دی ہے تاکہ وہ اسے جواز بناکر پیش کرسکیں اور عمران خان کے نشانے پر چوہدری برادران بھی آئینگے ،شاید وہ مزید بڑے انکشافات کریں یا پھر مستقبل میں پی ٹی آئی بمقابلہ ق لیگ ہوگا؟ یعنی بیک وقت پر پی ٹی آئی بہت سارے سیاسی مسائل کا سامنا کررہی ہے جو ان کی اپنی پیداکردہ ہیں۔