|

وقتِ اشاعت :   January 14 – 2023

کنفیوژن کے شکار مسلم لیگ(ن) نے پنجاب میں ایک اور موقع گنوا دیا جس سے تحریک انصاف کے کمزور ہوتے بیانیے کونئی طاقت مل گئی۔پرویز الٰہی کی سیاست نے جہاں اعتماد کا ووٹ لیکر مسلم لیگ(ن) کے لاؤ لشکر کو بدترین شکست دے دی ہے تو وہیں مسلم لیگ(ن) کی توقع کے برعکس پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس بھی گورنر کو بھیج دی۔پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی جنگ میں زیادہ بہتر ہوتا کہ معاملہ پرویز الہٰی پر چھوڑ کر انتخاب کی تیاری کی جاتی اوراسمبلی کی تحلیل میں پرویز الہٰی کا تذبذب مسلم لیگ (ن) کے حق میں جاتا جس کے بعد وہ اس طرح بیک فٹ پر نہیں ہوتی۔ اس سارے معاملے میں پیپلزپارٹی نے کوئی خاص سرگرمی نہیں دکھائی بلکہ جوڑ توڑ کے بادشاہآصف علی زرداری کے لاہور میں آنے کا شورغوغا تو ہوتا رہا لیکن عملاً ان کی کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آئی حتیٰ کہ انہوں نے پیپلزپارٹی کے وزیر اعلیٰ کی پیشکش کو بھی قبول نہیں کیا۔ وہ ایک زیرک سیاستدان ہیں انہوں نے سیاسی صورتحال کو بھانپ لیا تھا اور پیپلز پارٹی کو کی جانے والی وزارت اعلٰی کی پیشکش کو بھی قبول نہیں کیا۔ عمران خان کے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد مسلم لیگ (ن) کی جارحانہ حکمت عملی سے سب سے زیادہ فائدہ پرویز الہٰی کو پہنچا ہے مسلم لیگ(ن) کے تخت لاہور پر قبضے کے دعوے نے عمران خان کو پرویز الہٰی کے مطالبوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور وہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں بڑا حصہ لینے اور آئندہ کی وزارت اعلیٰ کے وعدے لینے میں کامیاب رہے اور مستقبل میں مسلم لیگ(ق) کوپنجاب کی بڑی پارٹی بنانے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں بھی کامیاب نظر آتے ہیں۔ انتخابی سیاست میں مسلم لیگ (ن) کی عدم دلچسپی سے ان کا مضبوط گڑھ پنجاب ان کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے ضمنی انتخابات میں اعلیٰ قیادت کی انتخابی مہم میں عدم دلچسپی نے پنجاب میں تحریک انصاف کو ناصرف کامیاب کرایا بلکہ انہیں اور مظبوط بھی کردیا ہے۔ضمنی انتخابات میں عدم دلچسپی کی وجہ اعلیٰ قیادت کے اختلافات ہیں یا کسی خفیہ ڈیل کا نتیجہ جو مسلسل تحریک انصاف کو آکسیجن دے رہا ہے بظاہر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی انتخابی مہم میں شمولیت ہی فقط مسلم لیگ (ن) کے ورکرز کو متحرک کرسکے گی لیکن اگر اس میں بھی دیر ہو گئی توسنبھلنے میں بہت تاخیربھی ہوسکتی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں تو یوں محسوس ہورہا تھا کہ مسلم لیگ(ن) نے پہلے سے ہی شکست تسلیم کرلی تھی حتیٰ کہ دھاندلی کے روایتی الزامات کا شور بھی نہیں اٹھا بظاہر یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ مریم نواز اور ان کے رفقاء شہباز شریف کو پارٹی کی قیادت دینے پر تیار نہیں ہیں اور پارٹی کے معاملات نواز شریف مریم نواز کے ذریعے اپنے قابو میں رکھنا چاہتے ہیں۔مریم نواز کوپارٹی کی تنظیم سازی کی ذمہ داری دینا بھی اسی عمل کا حصہ لگ رہا ہے جبکہ شہباز شریف کو مطمئن کرنے کے لئے پارٹی انتخابات کرواکر تاحیات سربراہ بنانے کی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں جس سے لگتا ہے کہ میاں نواز شریف کو اپنی نااہلی ختم ہونے کی امید نہیں ہے۔پنجاب میں اہم معاملات میں نواز شریف خاندان کا سرگرم نہ ہونا بھی شاید اسی لئے ہے کہ مریم نواز اور نوازشریف کی اہمیت سامنے رہے اور وہ یہ کہہ سکیں کہ معاملات مقامی قیادت کے حوالے ہیں لیکن کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آرہا ادھرعمران خان کی کوشش ہے کہ جلد سے جلدعام انتخابات ہوجائیں تاکہ ہوشربا مہنگائی میں ان کے بیانئے کو جو قبولیت مل رہی ہے اس کا فائدہ اٹھایا جاسکے اب تک کے انتخابات میں عمران خان کو پیپلزپارٹی کے علاوہ کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔پنجاب کے صوبائی انتخابات میں گو کہ تحریک انصاف کو سخت مقابلے کی توقع تھی لیکن مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پارٹی منحرفین کو دینے کی وجہ سے مقامی قیادت اور سپورٹر عدم دلچسپی کا شکار ہوگئے اور مسلم لیگ(ن) کا ووٹ ان کو نہ مل سکاجس سے تحریک انصاف کچھ سیٹیں گنوا کر بھی اکثریت سے کامیاب ہو گئی گو کہ اس وقت آصف علی زرداری کے متحرک ہونے کے باعث عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تھی لیکن عدالت کے متنازع فیصلے نے پارٹی منحرفین کے ووٹ شمار نہیں ہونے دیئے اور ان کی نشستیں بھی خالی قرار دے کر انہیں کڑی سزا دی گئی۔ ان تمام واقعات کے بعد حمزہ شہباز کی پنجاب میں وہ دلچسپی نظر نہیں آئی اور نہ ہی موجودہ صورتحال میں ان کا کوئی کردار دیکھنے کو ملا ہے۔ بہرحال مسلم لیگ (ن) کی غلط حکمت عملی سے پنجاب میں عمران خان کا بیانیہ کافی مضبوط ہوچکا ہے اور بظاہر مسلم لیگ (ن) مریم نواز کی واپسی تک بری طرح ہار چکی ہے اس طرز سیاست میں مسلم لیگ اپنا بیانیہ بنانے میں کامیاب نہیں ہورہی بلکہ انہوں نے تحریک انصاف کے انداز کو اپناتے ہوئے الزامات اور جوابی الزامات کا انداز اپنایا ہوا ہے لیکن سوشل میڈیا پر ان کا مقابلہ نہ ہونے کے برابر ہے۔آڈیو لیک ہو،ممنوعہ فنڈنگ یا کہ توشہ خانہ ہو اس کو پْراثر بنانے میں بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ الزامات کے انداز کو اپنانے کی وجہ سے وہ اپنی حکومت کی کامیابیوں کو بھی نمایاں نہ کرسکے اس ساری صورتحال میں مسلم لیگ کی میڈیا ٹیم تحریک انصاف کے انداز کو اپناکر خود کو ضائع کرتی نظر آرہی ہے اس ساری حکمت عملی پر نواز شریف اور مریم نواز نے بھی ناراضگی کا اظہار کیا ہے جس پر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ قیادت واپس آجائے جس کا مطلب یہ ہے کہ معاملات پر اب ان کا بھی کنٹرول نہیں رہا اور وہ بھی اب اپنی پارٹی کو انتخابات میں لانے کے لئے مریم نواز اور نواز شریف کی موجودگی کو لازمی سمجھتے ہیں اب دیکھنا یہ کہ کہ نوازشریف وطن واپسی کے لئے کسی ضمانت کا انتظار کریں گے یا پارٹی کو بچانے کے لئے واپسی کا فیصلہ کریں گے۔ہاں البتہ مریم نواز کی نااہلی ختم ہوچکی ہے اور وہ ملکی سیاست میں کردار ادا کرسکتی ہیں تاہم ان کو پارٹی کے اندر سینئر قیادت کے عدم تعاون کا سامنا کرنا پڑے گا جو نواز شریف کی موجودگی میں نہیں ہوگا لیکن اس کے لئے ضمانتوں کا انتظار کرنے کے بجائے سیاسی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلے کرنا ہونگے۔دوسری جانب پیپلزپارٹی نے سیاسی میدان میں صف بندی شروع کردی ہے پیپلزپارٹی نے سندھ،بلوچستان اور جنوبی پنجاب کو اپنا ہدف بنایا ہوا ہے اور سیاسی جادوگرآصف علی زرداری نے اپنی بساط بچھا دی ہے حال ہی میں انہیں بلوچستان میں تواچھی خاصی کامیابی بھی مل گئی ہے تاہم جنوبی پنجاب کے محاذ پر ان کا کام جاری ہے۔بلاول بھٹو زرداری بین الاقوامی سطح پر اپنے آپ کو بہت اچھے طریقے سے منوا رہے ہیں اپنی والدہ اور نانا کی وراثت بھی ان کے کام آ رہی ہے پیپلزپارٹی نے تحریک انصاف اور مسلم لیگ کے الزامات اور جوابی الزامات سے خود کو کافی دور رکھا ہے تاہم تھوڑا بہت وہ بھی اس طرز سیاست کا مزہ لیتے نظر آرہی ہے۔یہ سال انتخابات کا سال ہے گو کہ عمران خان نے صوبائی اسمبلی تحلیل کے بعد انتخابات میں پہل کرکے ایک سیاسی جوا کھیلا ہے انہیں یہ یقین کہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرلیں گے جس کے اثرات قومی اسمبلی پر آئیں گے مسلم لیگ(ن) کی حالیہ حکمت عملی سے تو ظاہر ہورہا ہے کہ عمران خان کا سیاسی جوا ہی کامیاب ہوگا۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا میں جے یو آئی اور اے این پی کو بھی سیاسی طور پر متحرک ہونا پڑے گا بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں دونوں جماعتوں نے اچھی کارکرگی دکھائی لیکن دوسرے مرحلے میں ان کا وہ اثر نظر نہیں آیا۔۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں عمران خان کے مقابلے میں اچھی فائٹ بھی کی تاہم کامیاب نہیں ہوسکے انتخابی اتحاد کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مقابلے میں مدمقابل توامیدوار نہیں ہوتا لیکن اتحادی جماعت کا ووٹر بھی باہر نہیں نکلتا۔بہرحال اب صوبائی انتخابات کے نتائج بتائیں گے کہ مستقبل کی سیاست کس کے ہاتھ میں ہے خاص طور پر اسٹیبلشمینٹ کے اے پولیٹکل ہونے کی صورت میں۔ اب تک تو یہی نظر آرہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ واقعی اے پولیٹکل ہے لیکن سیاسی پارٹیوں کی اندر اندر ہی یہ خواہش بھی ضرور ہے کہ کسی طرح ان طاقتوں کا وزن ان کے پلڑے میں آگرے۔۔ شکوک و شبہات میں گھری ہوئی عوام بھی اب تک اسٹیبلشمنٹ کے ارادے پر یقین نہیں کرپارہی لیکن اب تک کے سیاسی میدان میں ان کا کوئی خاص کردار نظر نہیں آرہا۔